جنوری 16, 2020
تبصرہ کریں

سوچ پر ہتھوڑے چلاتے، کوڑے برساتے افسانے – سوچ زار

محبت کے ساتھ، خلوص کے ساتھ، جناب فلاں صاحب کے لئے، ٹھپ دستخط۔۔۔ کچھ یوں مجھ جیسے عام قارئین کے لئے اکثر بڑے لکھاری اپنی کتاب دستخط کرتے ہیں۔ مگر میری لائبریری میں ایک کتاب سوچ زار ایسی بھی ہے کہ جس کی مصنفہ مریم مجید ڈار نے ناچیز کے لئے ایسا لکھا کہ فطرت کے صد رنگ چہرے کو صورتِ عکس قید کرنے والے جوگی ایم بلال ایم کے لیئے۔ ستائیس افسانوں پر مشتمل یہ کتاب منجمد سوچ پر ہتھوڑے چلائے، معاشرتی بگاڑ پر کوڑے برسائے اور معاشرے کو جھنجھوڑے ہی جھنجھوڑے۔ مصنفہ کا بے باک قلم یہاں تک لکھتا ہے کہ←  مزید پڑھیے
جنوری 11, 2020
تبصرہ کریں

اور وہ اپنی ہی سانسوں میں جل گئے

حرارت زندگی ہے مگر حرارت کی بے احتیاطی موت ہے۔ خود سوچیں! اس معاشرے کا کیا ہو گا، جہاں احتیاط کو بزدلی اور بیوقوفی کو بہادری سمجھا جاتا ہو۔ خیر کوئی جو بھی سمجھے، ہمارا کام ہے کہہ دینا۔ مثلاً ایک دفعہ دور دراز پہاڑوں میں کیمپ سائیٹ پر ایک بندے کو چھوٹے سے خیمے کے اندر چولہا جلائے دیکھا تو اسے منع کیا۔ سیدھی سی بات تھی مگر وہ آگے سے اپنے دلائل دینے لگا کہ کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں نے تنگ آ کر کہا، بھائی ہمیں بتا دو کہ جب تمہیں آگ لگے تو آیا جلتے ہوئے کو اٹھا کر نیچے کھائی میں بہتے دریا میں پھینک دیں یا پھر جب تم راکھ بن جاؤ تو تب تمہیں دریا میں بہائیں۔ اور پھر ہوا بھی یوں کہ←  مزید پڑھیے
جنوری 2, 2020
تبصرہ کریں

جب ٹلہ جوگیاں پر مور ناچتے تھے

پاکستان بننے کے بعد جوگی چلے گئے اور ٹلہ ویران ہو گیا۔ لیکن جنگلوں میں مور ناچتے رہے۔ حالانکہ جنگل سے لکڑی چُرانے اور ٹلہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے، بولے تو خزانے کی تلاش کرنے والے چور ٹلہ جاتے رہے۔ ان کے علاوہ حقیقت کے متلاشی، تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے یا سیروسیاحت کے شوقین اِکادُکا بھی ٹلہ پہنچتے رہے اور موروں کا ناچ دیکھتے رہے۔ وہ بھی ایک جوگی تھا کہ جو چرخے کی کوک سن کر پہاڑ سے اتر آیا اور یہ بھی سیروتفریح کا شوقین ایک جوگی فوجی افسر تھا کہ جو ٹلہ سے نیچے فائرنگ رینج میں بیٹھا دوربین سے اکثر ٹلہ کی چوٹی کا جائزہ لیتا رہتا۔ آخر جوگی دل کی آواز سن کر پہاڑ چڑھ گیا اور پھر←  مزید پڑھیے
دسمبر 31, 2019
1 تبصرہ

اے سالِ رفتہ 2019ء

اے سالِ رفتہ مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں۔ مگر جب تک سانسیں ہیں، میں تمہیں کبھی نہ بھولوں گا۔ تیری وہ اک شام بھی نہ بھولوں گا کہ جب میری امی جان اس دنیا سے چلی گئیں۔ اس واقعہ نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ بلکہ میرے لئے زندگی موت اور رشتوں ناتوں کے معنی ہی بدل گئے۔ سال 2019ء کے آغاز پر بہت کچھ سوچا تھا۔ سیاحت کے حوالے سے بھی کئی پلان تھے لیکن پھر دماغ کے تانے بانے ایسے بکھرے کہ دوستوں کو کہا یارو! مجھے معاف رکھو۔ خیر ان احباب کا بھی شکریہ کہ جنہوں نے مشکل میں مزید مشکلات بڑھائیں اور خلوص کی واٹ لگائی۔ اور وہ احباب ہیں←  مزید پڑھیے
دسمبر 17, 2019
1 تبصرہ

ہڑپہ سے ہری یوپیہ

ویران کھنڈر اور پرانی عمارتیں دیکھنا مجھے پسند ہیں۔ مٹ چکی تہذیبوں کے آثار کی سیاحت کا شوق رکھتا ہوں۔ اسی لئے میں ”ہُڑی پا ہُڑی پا“ کرتا ہڑپہ چل دیا۔ اور پھر خاک ہو چکے شہر کے اونچے نیچے ٹیلوں، ویرانوں اور ویرانے کی علامت پیلو کے درختوں سے گزرتے گزرتے منظرباز وقت کا سفر کر گیا۔ وادی سندھ کی تہذیب نے انگڑائی لی، ہڑپائی تہذیب جوان ہوئی اور ہڑپہ واپس ہری یوپیہ ہوا۔ انسانی ہڈیوں کے سفید سفوف سے واپس ہڈیاں بنیں۔ ان پر گوشت چڑھا۔ ان میں روحیں واپس لوٹیں۔ سارے کردار زندہ و جاوید نظر آنے لگے۔ ڈانسنگ گرل کا ناچ شروع ہوا اور←  مزید پڑھیے