ہمارے معاشرے میں جہاں بے جا خاندانی روایات اور چند بلاوجہ اثر انداز ہونے والے لوگ موجود ہوں وہاں جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ڈھیر ساری خوشیوں کے ساتھ ساتھ ایک جنگ نما ماحول بھی شروع ہو جاتا ہے جو کہ بچے کا نام رکھنے کی اتھارٹی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر والدین کسی مجبوری کے بغیر یہ اتھارٹی کسی کو دے دیں تو علیحدہ بات ہے۔ خیر عموماً اس جنگ کے حریف پھوپھی اور خالہ ہوتیں ہیں۔ آخر جو جنگ جیتتی ہے وہی بچے کا نام رکھتی ہے۔ بیچارے والدین اپنے بچے کا نام رکھنے تک کی تمنا دل میں دبائے سلگتے رہتے ہیں یا کچھ عرصہ بعد نام تبدیل کر دیتے ہیں یا پھر اسے رب کی رضا سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اس معاملے میں بھی وہی ہونا چاہئے جو دنیا کا قانون ہے یعنی جب کوئی انسان کوئی چیز یا قانون بناتا ہے یا ایجاد کرتا ہے تو وہی اُس کا نام رکھتا ہے یا وہ چیز یا قانون اُسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بعض چیزوں کے نام کسی کی یاد میں یا اعزاز میں رکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی چیز جو حکومت بنائے وہی اُس کا نام بھی رکھتی ہے۔ اس کی مثالیں ہمیں روزمرہ زندگی میں عام طور پر ملتی ہیں جیسے نیوٹن نے سائنس کے کچھ قوانین بنائے تھے تو آج بھی اُن قوانین کو نیوٹن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسی طرح جنہوں نے پاکستان بنایا انہوں نے ہی اس سرزمین کا نام رکھا تھا۔
اس عجیب کہانی سے آپ کا دل تو اُکتا رہا ہوگا لیکن تھوڑا سا انتظار کریں کیونکہ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں اتنی خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم کوئی کام خود سے تو کرتے نہیں لیکن اپنی بات دوسروں پر ٹھونستے ضرور ہیں۔ جیسے بچے کا نام اُس کے رشتہ دار ٹھونستے ہیں اسی طرح ہماری حکومت خود سے کچھ کرنے کی بجائے پہلے سے بنی ہوئی چیزوں اور اُن کے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کر کے اپنی مرضی کے نئے نام ٹھونس رہی ہے۔ نوا ب شاہ کا نام تبدیل کر کے بینظیر بھٹو شہید رکھ دیا ہے۔ سید نواب شاہ کی روح کے ساتھ عجیب مذاق کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سید نواب شاہ کی طرح زرداری صاحب خود سے ساڑھے چھ سو ایکڑ زمین غریبوں کو شہر بسانے کے لئے دیتے پھر اُس شہر کا جو چاہے نام رکھتے۔ چاہے بینظیر بھٹو شہید رکھتے یا زرداری ٹا ؤن رکھتے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا بلکہ خوشی ہوتی۔ ایک اور نام ٹھونس دیا گیا ہے۔ اسلام آباد انٹر نیشنل ایئر پورٹ کا نام بینظیر بھٹو شہید کر دیا گیا ہے۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایک نیا ایئر پورٹ بنایا جاتا پھر اُس کا نام بینظیر بھٹو شہید رکھا جاتا۔ ویسے جب بلاول پیدا ہوا تھا، کیا ہی اچھا ہوتا عوام تب پھوپھی اور خالہ کی طرح میدان میں کود پڑتی اور بلاول کا نام عوام رکھتی۔ ویسے ابھی بھی کوئی مضائقہ نہیں جیسے ملکی املاک کا نام حکومت تبدیل کر رہی ہے ایسے ہی عوام اب پھوپھی اور خالہ کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے عوام کا جو حال ہو گا وہ تو سب جانتے ہیں۔
میں تو کہتا ہوں صدر صاحب صاحبِ حیثیت آدمی ہیں۔ محترمہ بھی مالدار خاتون تھیں اوپر سے کافی انشورنس بھی ملی ہے تولگتے ہاتھوں شہر شہر سکول، کالج، یونیورسٹی اور ہسپتال بنائیں۔ پھر سب کا نام اپنے یا بینظیر بھٹو شہید کے نام سے رکھیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا بلکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں صدر صاحب اور اُن کے خاندان کے لئے سلامتی کی دعائیں کریں گی۔ ہم اتنی دعائیں کریں گے کہ صدر صاحب کی حکومت کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ صدر صاحب کو دعائیں دینے کا وقت آنے سے پہلے ہماری ایک التجا ہے خدا کے لئے عوام کی بنائیں ہوئی چیزوں اور پہلے سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کر کے اپنے نام نہ ٹھونسیں۔ عوام اور سید نواب شاہ جیسے لوگوں کی روحوں کے ساتھ مذاق نہ کریں۔
سنا ہے اس میدان میں وفاقی حکومت ہی نہیں بلکہ اب تو صوبہ سرحد کی حکومت بھی اتر چکی ہے اور پشاور ایئر پورٹ کا نام بھی تبدیلی کے مراحل میں ہے۔ نیا نام باچا خان(غفار خان) کے نام پر رکھا جا رہا ہے۔اگر ایسے ہی نام تبدیل ہوتے رہے اور ہر اقتدار میں آنے والے نام ہی تبدیل کرتے رہے تو لگتا ہے ایک وقت ایسا آئے گا جب مزارِ قائد اور علامہ اقبال کے مقبرے تک کا نام اپنے آباؤاجداد کے نام سے تبدیل کر دیا جائے گا 🙂 بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام آباؤاجدادی جمہوریہ اقتدارستان ہو جائے گا۔
“اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام آبا ؤاجدادی جمہوریہ اقتدارستان ہو جائے گا۔”
ہمارے ملک کا نام بانيان پاکستان نے صرف پاکستان رکھا- باقی سابقے لاحقے اس وقت نہيں تھے- اگر بانيان پاکستان کا رکھا ہوا نام تبديل ہوگيا تو اور تبديلی کيوں نہيں ہوسکتي؟
اگر نام بدلنے سے مسائل حل ہو سکتے یا ترقی کی راہیںکھلتیں تو اب تک پاکستان ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ ہم سادہ دل لوگ حکمرانوں کی ان چھوٹی چھوٹی حرکتوں سے ہی خوش ہو کر زندگی گزار دیتے ہیں کیونکہ ہمیںکبھی حکومتوں نے اس سے بڑی خوشی دکھائی ہی نہیں۔
یہی مسئلہ ہے کہ اصل کام چھوڑ کر ناموں میں ردوبدل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ افضل صاحب کی بات درست ہے کہ ان چیزوں سے ترقی کی راہیں کھلتی تو سب سے ترقی یافتہ قوم غالبا ہم ہی ہوتے ۔۔ نام بدل کر واقعتا کسی جگہ کے پورے ثقافتی ورثے بلکہ تاریخ پر ضرب لگادی جاتی ہے اور گمان یہ کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔
بہت خوب لکھا ہے بلال۔ اچھی سوچ ہے۔
پنڈی میں تو چوک چوراہے، روڈ، ہسپتال، پارک کا نام اب بے نظیر بھٹو رکھ دیا ہے
سنٹرل ہسپتال کا نام بدلنے پر ایک دوست نے بڑا مزے کا تبصرہ کیا کہ ’بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال‘ کی بجائے ’ایم بی بی ایس ہسپتال رکھ دیتے۔ یعنی ’محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہسپتال‘۔
یہ بے نظیر شے نظیر اور باچے شاچے کے نام پر جو مرضی رکھ دیں کچھ نہیں بدلنےوالا۔ یہ سب گند تو خانہ پری اور مال کھانے کے لئے کیا ہے۔ صرف سنٹرل ہسپتال کی سٹیشنری، ہورڈنگز اور سائن بورڈز کی تبدیلی کا تخمینہ کروڑوں میں تھا۔ اور جو سب پرانا مال تھا اسکا ضیاع الگ۔ پر ٹینشن ناٹ، ہم ایک شہنشاہ قوم ہیں۔
تمام دوستوں کا بہت شکریہ کہ انہوں نے میرے بلاگ پر تبصرہ کیا۔۔۔
منظر نامہ کا بھی بہت شکریہ کہ انہوں نے میری تحریر کو منظر نامہ پر زیرِ بحث لایا۔۔۔
اللہ تعالٰی آپ سب کو خوش رکھے۔۔۔آمین
بلال بھائی ویسے لکھا تو خوب ہے، اور سب کچھ حق کے مطابق ہے۔ اب آپ اسی تحریر میں اس کا حل بھی لکھیں، یعنی عوام کیا کردار ادا کرے۔ اس کے متعلق میری دوسرے لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی اپنا وقت نکال کر اس مسئلہ پر قیاس کریں اور پھر اپنی تحقیق کو علان عام کریں تاکہ دوسرے بھی آپ کی تحقیق سے استفادہ کر سکیں۔
جب تک ہم با شعور نہیں ہونگے اور ذاتی و گروہی مفادات سے بلاتر ہو کر سوچنا شروع کریں گے، یہ حکمران ٹولہ اسی طرح کے ڈرامے کر کے ہمیں مزید “بے وقوف” رہے گا۔
میرے خیال میں تو ان تمام شہروں اور قصبوں کا نام بھی بحال ہونا چاہیے جنہیں بیک جنبش قلم مسلمان کر دیا گیا تھا ۔