اپریل 30, 2013 - ایم بلال ایم
13 تبصر ے

خدارا بتاؤ کہ مسلمان جائے تو کدھر جائے؟

اللہ کے نام سے ابتدا۔ جو مہربان، رحم کرنے والا اور ہر چیز کا مالک ہے۔ وہ ہر بات اور دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔

آٹھ دس سال پہلے سے اب تک اور خاص طور پر جب خلافت کے لئے متحرک لوگوں کا مواد پڑھا تو خلافت، جمہوریت اور بادشاہت وغیرہ پر تحقیق کے لئے میں نے کئی ایک کتابیں اور تحاریر پڑھیں۔ قرآن، حدیث اور خلفاء راشدین منتخب ہونے کے واقعات وغیرہ سے کسی نے خلافت کو جمہوریت کے قریب ترین ثابت کیا تو کسی نے خلافت کو بادشاہت سے جا ملایا، اور تو اور کئی خلافت کے لئے ڈکٹیٹر تک کے حق میں پائے گئے۔ کئی ایک جگہ اسلامی ریاست کا ڈھانچہ درج اور اکثر جگہ خلیفہ مسلمانوں کی مشاورت سے بنے گا وغیرہ وغیرہ پڑھنے کو ملا، لیکن کسی نے یہ نہیں لکھا کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی یہ ”مشاورت“ کیسے ہو گی؟اس مشاورت کا عملی طریقہ کیا ہو گا؟ موجودہ دور میں خلافت پر لکھی گئی موٹی موٹی اور لمبی چوڑی تحاریروکتب (تھیوریز) ملیں گی مگر اسلام کی روشنی میں آج کے دور میں خلافت نافذ کرنے کا عملی طریقہ شاید ہی کہیں ملے۔ اگر ملے گا بھی تو کسی نے تلوار کے زور پر اسلام نافذ کرنے کا کہا ہو گا اور کسی نے جو نظام ترتیب دیا ہو گا اگر اس کا باریکی سے مشاہدہ کریں تو صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہو گا جبکہ بنیادوں میں جمہوری روح ہی کار فرما ہو گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں نے دو ٹوک جمہوری طریقہ کہہ دیا جبکہ وہ اسے جمہوری طریقہ کہنا پسند نہیں کرتے۔

اسلام (قرآن و حدیث) میں خلیفہ منتخب کرنے کا طریقہ نہ ہونا، پیارے نبیﷺ کا اپنے بعد جانشین مقرر نہ کرنا[حوالہ]، مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے خلفاء راشدین کا منتخب ہونا۔ صاف صاف یہ واضح کر دیتا ہے کہ خلیفہ منتخب کرنے کا کوئی خاص طریقہ نہیں بلکہ یہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ خیر مزید تفصیل میں دیکھیں تو خلفاء راشدین منتخب ہونے میں مسلمانوں کا اتفاق رائے اور مشاورت کا ہونا، حضرت عمرؓ کا یہ کہنا کہ ”جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے“، حضرت علیؓ کا یہ کہنا کہ ”میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہونی چاہیئے“۔ تحقیق کے بعد اس جیسے دیگر کئی بیانات اور واقعات کی بنیاد پر میری یہ رائے بنی کہ خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے یعنی خلیفہ بنانے کا طریقہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ وہ حالات کے مطابق اسلامی حدود میں رہتے ہوئے باہمی مشاورت سے اپنا خلیفہ مقرر کر لیں۔ انہیں نکات کی بنیاد پر اپنا نکتہ نظر آسان الفاظ میں بیان کرنے کے لئے ایک تحریر ”خلافت اور جمہوریت“ لکھی۔ وہ تحریر دونوں اطراف یعنی خلاف اور جمہوریت میں ظاہری نظر والی چیزوں کے مطابق اس انداز میں لکھی کہ میری طرح کے کئی دوسرے مسلمان جو لفظوں کے ہیرپھیر کی وجہ سے پریشان ہیں اور ان چیزوں کو سمجھ نہیں پا رہے انہیں کچھ سمجھ آ سکے اور ساتھ ساتھ میں بھی کچھ سیکھ سکوں۔ آسان الفاظ میں ایک عوامی قسم کی تحریر لکھنے کی کوشش کی۔ پہلے میں نے اپنی معلومات لکھی اور پھر میرا سوال تھا کہ آج کے دور میں خلیفہ کیسے منتخب کیا جا سکتا ہے؟ کہیں خلافت اور جمہوریت ایک تصویر کے دو رخ تو نہیں؟ مگر جواب میں کئی یار لوگ لٹھ لے کر حاضر ہو گئے اور جمہوریت کی مخالفت اور خلافت کی شان میں قصیدے پڑھنے لگے۔ میں سوال کرتا کہ بھائی جی خلیفہ مقرر کرنا ہے اس کا طریقہ بتاؤ؟ جواب ملتا کہ جمہوریت کفر ہے، خلافت اسلام کا نظام ہے۔ سوال کرتا کہ میں بھی مانتا ہوں کہ خلافت ہی اصل چیز ہے مگر یہ آج کے دور میں نافذ کیسے ہو گی؟ اس کا اسلام کے مطابق کوئی عملی طریقہ تو بتاؤ؟ جواب پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔

یار لوگ تو جمہوریت کا نام سنتے ہی سیخ پا ہو جاتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ یہ مغرب کا طریقہ کار ہے۔ کوئی جمہوریت اور آج کے دور میں خلافت قائم کرنے کے طریقے پر بات کرے تو یار لوگ جمہوریت کی برائیاں اور خلافت کی شان میں قصیدے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ میں خود خلافت کا قائل ہوں لیکن بات جمہوریت کی خرابی یا خلافت کی اچھائی کی نہیں، بات تو آج کے دور میں خلافت نافذ کرنے کے طریقے کی ہے۔ کوئی کہے کہ خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے جس میں مسلمان عوام مجلس شوریٰ اور پھر مجلس شوریٰ خلیفہ منتخب کرتی ہے، یعنی عوام بالواسطہ خلیفہ بناتی ہے، تو اس پر اعتراض، جبکہ ”وہ“ کہیں کہ خلیفہ مسلمانوں کی مشاورت اور رضامندی سے مقرر ہونا چاہئے یا امت ہی خلیفہ کا بالواسطہ یا براہِ راست چناؤ کرتی ہے، تو ان کی بات اسلام کے مطابق ٹھہری۔ کوئی کہے کہ عوام ووٹ کے ذریعے خلیفہ مقرر کرتے ہیں، تو اس پر اعتراض، جبکہ ”وہ“ کہیں کہ عوام بیعت کے ذریعے خلیفہ مقرر کرتے ہیں تو یہ بات اسلام کے عین مطابق ٹھہرے۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کیونکہ میں ان الفاظ کے ہیر پھیر سے تنگ آ چکا ہوں۔

قارئین! وہ باتیں جن میں الفاظ کا ہیر پھیر کر کے لوگ جمہوری طریقے سے نظام ترتیب دینے کی مخالفت کرتے ہیں اور خلافت کو جمہوری طریقے کی بجائے کوئی دوسرا طریقہ ثابت کرتے ہیں۔ انہیں باتوں کی بالکل تھوڑی سی وضاحت کرتا ہوں اور فیصلہ آپ خود کریں۔
جمہوریت میں عوام حاکم مقرر کرتی ہے۔
خلافت میں امت خلیفہ مقرر کرتی ہے۔
جمہوریت میں عوام قانون سازی کرتی اور اس کو نافذ کرتی ہے۔
خلافت میں امت اللہ کے احکامات کے مطابق قانون سازی کرتی اور اس کو نافذ کرتی ہے۔
جمہوریت میں عوام کا منتخب کردہ مخصوص گروہ قانونی فیصلے کرتا ہے۔
خلافت میں امت کا منتخب کردہ مخصوص گروہ اللہ کے احکامات کے مطابق قانونی فیصلے کرتا ہے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا دونوں طرف طریقہ ایک ہی ہے بس ایک طرف غیر مسلم اپنی حاکمیت کے مطابق نظام ترتیب دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مسلمان اللہ کی حاکمیت کے مطابق نظام ترتیب دے رہے ہیں، جبکہ دونوں طرف طریقہ جمہوری ہی ہے۔

میرے مسلمان بھائیو! جمہوریت کو صرف مغربی نظام کے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ خلفاء راشدین مقرر ہونے میں جو ”جمہوری روح“ کارفرما تھی اس پر بھی غور کریں۔ اسلام نے بتا دیا ہے کہ فلاں فلاں خصوصیات کے حامل کو اپنا امیر مقرر کرو جبکہ امیر مقرر کرنے کا طریقہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے یعنی مسلمان حالات کے مطابق، باہمی مشاورت سے اپنا امیر مقرر کر لیں۔ فیصلہ آپ لوگ خود کریں کہ آج کے دور میں یہ مشاورت کیسے ممکن ہے؟

قرآن میں امیر کی خصوصیات کا ذکر ہونا یعنی کن خصوصیات کے حامل کو مسلمانوں کا امیر(خلیفہ) مقرر کرنا چاہئے لیکن خلیفہ مقرر کرنے کا طریقہ نہ ہونا اور پیارے نبی حضرت محمدﷺ کا کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ کرنا، کیا یہ ثابت کرتا ہے یا نہیں کہ خلیفہ مقرر کرنے کا طریقہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ یعنی مسلمان حالات کے مطابق باہمی مشاورت سے خلیفہ مقرر کر لیں؟ اس کے بعد اگر ہم خلفاء راشدین کے مقرر ہونے کا بغور مطالعہ کریں تو تب بھی ہمیں خلیفہ مقرر ہونے میں کہیں کم تو کہیں زیادہ مشاورت اور اتفاق رائے نظر آتی ہے۔ اگر کہیں ہنگامی حالات میں اچانک خلیفہ مقرر ہوا تو تب بھی تھوڑی بہت مشاورت اور اتفاق رائے موجود تھی اور پھر اس کی بھی وضاحت کر دی گئی اور اسی بات پر زور دیا گیا کہ خلیفہ مسلمانوں کی مشاورت اور اتفاق رائے سے مقرر ہونا چاہئے۔ کیا یہ سارے حالات و واقعات یہ نہیں بتاتے کہ خلیفہ مقرر کرنے کا اختیار مسلمانوں کو دے دیا گیا ہے؟ کیا یہ سب یہ نہیں بتا رہا کہ خلفاء راشدین مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے مگر اتفاق رائے سے مقرر ہوئے تھے؟ کیا اتفاق رائے سے کسی کام کو سرانجام دینے کو جمہوری طریقہ نہیں کہا جاتا؟

بالفرض اتفاق رائے سے کام سرانجام دینے کو جمہوری طریقہ نہیں کہا جاتا تو پھر آپ ہی بتائیں کہ آج کے دور میں وہ کونسا عملی طریقہ ہو سکتا ہے جس کے ذریعے مسلمانوں سے مشاورت بھی کی جائے اور پھر اتفاق رائے سے خلیفہ نامزد کیا جائے؟ چلیں ہم ان لوگوں کی بات مان لیتے ہیں جو کہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں سے نہیں بلکہ اہل رائے ہی خلیفہ منتخب کریں گے۔ خدا کے لئے اب ہمیں صرف یہ بتا دو کہ موجودہ دور میں اہل رائے کی تعریف کون کرے گا؟ اہل رائے معاشرے سے کیسے چُنیں جائیں گے؟ آخر اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں اہل رائے ہیں اور فلاں نہیں؟ بات تو کڑوی ہے لیکن سچ ہے کہ جو لوگ خود آج تک متحد نہیں ہو سکے، بھلا وہ اہل رائے منتخب کرنے پر اتفاق کیسے کر لیں گے؟ ایک کہے گا کہ فلاں اہلِ رائے ہے جبکہ دوسرا کہے گا کہ نہیں نہیں فلاں اہلِ رائے نہیں۔ یہاں عید کے چاند پر آج تک اتفاق نہیں ہو سکا تو پھر اہلِ رائے پر متفق ہونا تو بہت بڑی بات ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں خلافت اور جمہوریت پر لکھی گئی کتب جن کے لوگ عام طور پر حوالے دیتے ہیں، ان میں ایک صاحب کہتے ہیں ”بڑی سرکار“ کی بادشاہت کو خلافت تسلیم کر لو اور باقی مسلمان ممالک ان کی زیر نگرانی آ جائیں تو دوسرے صاحب ”بڑی سرکار“ کی بادشاہت کو سرے سے اسلام کے مطابق سمجھتے ہی نہیں۔ ایک کے نزدیک ”باپ خلیفہ“ اپنے بیٹے کو خلیفہ بنا سکتا ہے تو دوسرے کے نزدیک یہ خاندانی منصب نہیں بلکہ خلیفہ مسلمانوں کی مشاورت سے منتخب ہونا چاہئے۔ قارئین! آپ خود فیصلہ کریں کہ کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں؟

نہایت محترم بڑے لوگو! اگر ہم آپ کی نظر میں جاہل ٹھہرے تو ایسے ہی سہی، ہم خود کو جاہل مان لیتے ہیں۔ لیکن خدارا یہ جو مسلمانوں کے ذہنوں میں خلافت کے متعلق کشمکش چل رہی ہے اس کا کوئی حل تو بتاؤ۔ آپ کہتے ہیں تو ہم مان لیتے ہیں کہ خلافت اور جمہوریت میں بہت فرق ہے، اب اللہ کا واسطہ ہے کہ جمہوریت کی برائیاں گنوا کر خلافت کی شان بڑھانا چھوڑیں اور ہم جیسے عام مسلمانوں کو خلافت رائج کرنے کا عملی طریقہ بتائیں، اب چونکہ آپ کہتے ہو کہ خلافت جمہوری طریقہ نہیں، لہٰذا ایسا طریقہ بتاؤ جس میں جمہوری روح بھی ”نہ“ ہو، اسلام کے عین مطابق بھی ہو اور اس پر مسلمان عالم دین بھی متفق ہوں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ مسلمان عالم دین متفق نہیں ہو سکتے تو پھر حضور ہمیں چھوڑیں اور پہلے ان لوگوں کو تو متحد کر لیں جنہوں نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ میری باتوں کا غصہ نہ کیجئے گا بلکہ اس متعلق سوچیئے گا کہ آج کے مسلمان کی کیا حالت ہے اور اس میں کس کا قصور ہے؟ یقیناً مجھ جیسے ایک عام مسلمان کا بھی قصور ہے لیکن بات تو یہ بھی سوچنے والی ہے کہ آخر میرے جیسا مسلمان یہاں تک کس کی عدم توجہ کی وجہ سے پہنچا ہے؟ وہ بھی آپ میں سے ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ خلافت جمہوری طریقہ ہے، اور وہ بھی آپ میں سے ہی ہیں جو خلافت کو بادشاہت سے جا ملاتے ہیں اور وہ بھی آپ میں سے ہی ہیں جو بزورِ تلوار خلافت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ایک مسلمان جائے تو کدھر جائے؟ ان حالات میں اگر کوئی خود تحقیق کر کے کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے، تب بھی آپ کو اعتراض ہے اور تو اور آپ اسے جاہل اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہو۔ اگر کوئی سوال کرتا ہے تو آپ اسے گستاخ کہتے ہو۔ حضورِ والا! ہم بہت کمزور مسلمان ہیں۔ آپ ہی بتا دیں کہ مسلمان کیا کریں؟ کس مکتبِ فکر کی بات مانیں؟ اگر آپ کہتے ہو کہ خود تحقیق کرو اور ایک کی بات مان لو، تو حضور والا! ہم نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا لیکن آپ کو تب بھی اعتراض ہے۔ چلو ہم ہار مانتے ہیں اور سب آپ پر چھوڑتے ہیں۔ اب برائے مہربانی متحد ہو کر کوئی ایک فیصلہ کریں تاکہ ہم آپ کے پیچھے چل سکیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر کم از کم ہمیں الزام نہ دیجئے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 13 تبصرے برائے تحریر ”خدارا بتاؤ کہ مسلمان جائے تو کدھر جائے؟

  1. جمہوریت سے انکار عموما وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں انسان کی فہم و فراست اور اسکی فکری طاقت پر شک ہوتا ہے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ انسان اس قابل نہیں ہے کہ اپنے فیصلے خود کرسکے اور اپنے حکمرانوں کا انتخاب کر سکے۔ یہ یقینا ایک ناقص سوچ ہے اور تاریخ میں‌اس سوچ کو بہت دفع سرنگوں‌دیکھا گیا ہے۔ اگر ہم اس قرآنی حکم کو مانتے ہیں‌کہ اللہ سبحان تعالی نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے تو پھر ہمیں انسانی صلاحیتوں‌اور انسانی استعداد پر شک بھی نہیں‌کرنا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے جمہوریت کی تو یہ کوئی منجمد فلسفہ اور نظام نہیں ہے بلکہ اس میں‌مسلسل تبدیلی آرہی ہے۔ جمہوریت کی مختلف قِسمیں‌اس وقت دنیا میں‌رائج ہیں اور یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ اسے وقت، جغرافیہ اور انسانی ترجیحات کے مطابق تبدیل کیا جاسکتاہے۔ اسلام کی تاریخ‌ایسے امثال سے بھری پڑی ہے جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ماضی میں خلافت کے نام پر ملوکیت اور خاندانی جاگیرداری بھی اسلام اور مسلمانوں پر مسلط کیا گیا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے سید مودودی کی کتاب “خلافت اور ملوکیت” پڑھی جاسکتی ہے۔

  2. 😆 😆
    ایک مولوی صاحب جن کے دینی علم کا میں معترف ہوں۔
    ایک دن میں نے جاپان کی جمہوریت کا قصیدہ پڑھ دیا۔کہ دیکھیں کیا پر سکوں ماحول او رمعاشرہ اور نظام ہے۔
    اور کاش کہ ہمارے ملک میں بھی جمہوریت اپنی اچھی حالت میں آجائے۔۔
    ایک عدد خلافت پر لکچر سننےکو ملا ۔۔جس کا آپ کی طرح مجھے بھی علم تھا!
    پہلے آپ خلفہ راشدین کے ادوار جیسے آپ لکھ چکے اس پر ہم غور کرتے ہیں تو آخر کار ہمارے پاس خلافت راشدہ کے اختتام کے ساتھ ہی دو بڑے فرقوں کے ظہور کا پتہ چلتا ہے۔ جو صرف اور صرف خلافت کے اختلاف پر وجود میں آئے۔ چار امام جو گذرے ہیں ان کے ادوار میں بھی خلافت ہی تھی۔۔لیکن۔۔؟
    پھر اس کے بعد خلافت کے چھینا چھپٹی کا ایک عظیم دور ہم مسلمانوں کی تواریخ میں رقم ہے۔یعنی خلیفہ میرا اور خلافت میری کا جھگڑا!
    ہمارے پاس خلافت کی بہترین مثال صرف خلافت راشدہ ہی کے ادوار ہیں ،اس کے بعد ہمارے پاس کوئی خاص قابل ذکر مثال ملتی بھی ہے تو عمرثانی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔انتشار کا شکار یہ ادوار بھی رہے ہیں۔جس پر لکھنے سے ہم اس لئے کتراتے ہیں کہ ہماری مسلمانی کو مشکوک کر دیا جائے گا۔
    اتنا تو ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی طریقہ ہے تو ہم مسلمانوں کوخلافت کا نظام دے دیا جائے جس کی ہم مخالفت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے!
    بتانا چاہ رہا تھا مولوی صاحب کے متعلق!
    لکچر سننے کے بعد نہایت مودبانہ طریقے سے عرض کیا کہ جناب آپ کی ساری باتیں سچ اور حق ہیں ،لیکن مجھے بتائیں کہ جمہوریت میں برائی کیا ہے؟
    جواب ایسا ہے کہ جو آپ کی ٹینشن بھی دور کر دے گا۔
    مولوی صاحب نے جلال سے ارشاد فرمایا تھا۔کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
    جمہوریت کافرانہ نظام ہے۔
    عرض کیا جناب وہ کیسے؟
    اس لئے کہ جمہوریت میں خلیفہ نہیں ہوتا!!
    تو جناب جیسے اس وقت میرا لیڈر آوے ہی آوے کا ہنگامہ برپا ہے۔
    یہی حال میرا خلیفہ ہمارا خلیفہ آوے ہی آوے کی انسانی نفسیات ،ذہنیت ہی ہر نظام کو لپیٹ کر پس پشت کر دیتی ہے اور
    صرف جذبات ماضی کے قصیدے پڑھتے ہیں۔۔حال پر کوئی غور نہیں کرتا۔
    ویسے سوچنے کی بات ہے۔۔خلیفہ صاحب کوصرف پاکستان میں نزول کروانا ہے؟

    1. یاسر صاحب !
      مجھے آپ سے اختلاف ہے محترم آپ نے لکھا ہے (ہمارے پاس خلافت کی بہترین مثال صرف خلافت راشدہ ہی کے ادوار ہیں) مجھے حیرت ہے کہ آپ نے کس بات سے اندازہ کیا۔
      سب سے پہلے تو ان خلیفاوں کے انتحاب ہی میں اختلاف ہے۔مثلا
      1 خلفیہ اول مدینہ کے مضافات میں واقع ایک گھر میں بیٹھے کچھ لوگوں کی رائے سے بنائے جاتے ہیں۔
      2 دوسرے خلیفہ اول کی وصیحت پر بنائے جاتے ہیں۔
      3 تیسرے خلیفہ کا انتحاب دوسرے خلیفہ کے نامزد کردہ 5 افراد میں سے 3 کی رائے پر کیا گیا۔
      4 چھوتے خلیفہ جمہور کی رائے پر بنائے گئے۔
      تو محترم ہم کون سا طریقہ اپنائیں،
      اور خلافت راشدہ کی کامیابی کا یہ عالم کے ان چار خلیفاوں میں سے تین کو قتل کر دیا گیا۔
      اس کے علاوہ تاریخ بھری پڑی ہے اس نظام کی ناکامیوں سے ۔

  3. 😆 😆 🙄
    او پاپے میں تے پہلے ای کہہ دتا سی. ہوائی قلعے بے شمار اور عملی حل صفر. مخالفت برائے مخالفت. نعرے کی کشش، سو سال پرانا رومانس کہاں جائے گا اتنی جلدی.

  4. جمہوری نظام کافروں کی دین ہے اسلئیے ان لوگوں کو قابلِ قبول نہیں ہے۔ اچھا جی بہت اچھی بات ہے، تو یہ موبائل فون بھی کافروں کی دین ہے، یا پراڈو بھی کافروں کی دین ہے، یہ کلاشنکوف جسے یہ اپنا زیور کہتے ہیں یہ بھی کافروں کی دین ہے، جس گھر میں یہ رہتے ہیں وہ جس سمنٹ سے بنتا ہے وہ سمنٹ بھی کافروں کی دین ہے، ایڈیسن کی ایجاد ہے۔ جس فرج سے سے ٹھنڈا پانی پیتے ہیں وہ بھی کافروں کی دین ہے، جس ائر کنڈیشن سے یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں لیتے ہیں وہ بھی کافروں کی دین ہے، انکی زندگی کی ہر سہولت کافروں کی ہی دین ہے، تو پھر جمہوریت پر ہی انکار کیوں؟ پھر ان کو ان ساری چیزوں کا استعمال بھی ترک کرنا چاہئیے نا ان سب چیزوں کا بھی انکار کرنا چاہئیے۔

  5. بلال صاحب آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے۔میں بھی آج کل فیس بک پر ایسے ہی کچھ دوستوں سے بحث کررہا ہوں۔جو نکات آپ نے اٹھائے ہیں وہی میں بھی اٹھا رہاہوں لیکن وہ مان کر ہیں نے دے رہے۔تاریخ کے حوالے اور مثالیں دینے کے باوجود پھر وہی رٹ کی جمہوریت کفر کا نظام ہے جبکہ خود ان کے مطابق خلیفہ خود ہی اجتہاد کرسکتا ہے یعنی اسلامی احکامات کی خود تشریح کرسکتا ہے۔اللہ انہیں ہدایت دے

  6. بلال بھائی میں پہلے سے جانتا تھا کہ آپ نے یہ سوال اٹھانا ہے لیکن اگر میں اس متعلق بھی اسی تحریر میں ہی بات کرتا تو پھر یہ تحریر کوئی نہ پڑھتا، بات بہت لمبی ہوجاتی اس لیے آخر میں لکھ دیا کہ اگلی قسط میں اس پر بات کروں گا مزید جمہوریت و خلافت کی لغت، اصطلاح اور پس منظر میں جو فرق موجود ہے اس پر بھی ریفرینسیز کے ساتھ بہت لمبی بحث کی جاسکتی تھی لیکن وہ بھی ذیادہ ہی علمی ہوجاتی اور اس طرح کی علمی ابحاث سے بھی عوام بھاگتی ہے اس لیےمیں نے چند بنیادی پوائنٹس پر مثالوں سے بات کردی ، باقی جوآپ نے میری تحریر پر اصحاب الرائے کے متعلق بات کی کہ موجودہ زمانے میں ان کو کیسے منتخب کیا جائے گا؟ آپ دراصل اس انتخاب کو خلافت کے لیے جو محنت ہوگی اور تبدیلی آئے گی، اس سے پہلے دیکھ رہے ہیں اس لیے اس دور انتشار میں یہ سب کچھ مشکل لگ رہا ہے، موجودہ دور میں یہ واقعی مشکل ہے، میں اگلی تحریر میں اس پوائنٹ کو کلئیر کرنے کی کوشش کروں گا۔ انشاء اللہ۔ ۔ یہاں تک آپ کی بات پڑھنے سے میں تو سمجھ رہا تھا کہ آپ کو جمہوریت اور خلافت میں فرق سمجھ آگیا ہے اور اب آپ کو صرف نمائندگان کے موجودہ دور میں انتخاب پر اعتراض ہے، لیکن جب آپ کی تحریر پڑھی تو ایسے لگا کہ کچھ بھی سمجھ نہیں آیا، آپ ابھی بھی جمہوریت اور خلافت کو ایک ہی نظام قرار دے رہے ہیں، حالانکہ جو بنیادی فرق ہے اس پر آپ شروع میں خود بھی بات کررہے ہیں۔ آپ نے جو میرا پیرا کوٹ کیا اور اسکو جمہوری طریقہ کہا، مجھے سمجھ نہیں آئی یہ کیسے جمہوری طریقہ ہوگیا، لفظ جمہور اکثریت کو کہتے ہیں اور جمہوریت اصطلاحی طور پر اکثریت سے رائے لینے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والے نظام کو کہتے ہے، جبکہ خلافت میں تو صرف مشاورت ہے اور صرف عقل و فہم رکھنے والے چند لوگوں سے ہی رائے لی جاتی ہے، میرے پیراگراف میں بھی اسی پر بات کی گئی ہے۔ معذرت کہ اب آپ اگر صرف اس بنیاد پر کہ خلافت میں بھی رائے لینے کا ذکر ہے خلافت کو جمہوریت قرار دے دیں ‘ سینس والی بات نہ ہوگی۔۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے پہلے بھی عرض کیا کہ کوئی کہے کہ مرغی بھی دانا کھاتی ہے اور کوا بھی اس لیے کوا بھی مرغی ہے یا سور کی بھی چار ٹانگیں ہیں اور بکرے کی بھی، اس لیے بکرے اور سور میں کوئی فرق نہیں۔ ۔ ۔یہاں دونوں میں جس بنیاد پر فرق کیا گیا ہے اسی بنیاد پر اگر جمہوریت اور خلافت میں فرق کرلیا جائے تو یہ پھر بھی یہ کیسے ایک ہوگئے حالانکہ دونوں کےطریقہ کار اور اثرات میں بھی واضح فرق موجودہے ؟؟ ایک اور بات میرا آپ کی تحریر پر یہ لکھنے کا مقصد اپنے آپ کو عالم اور آپ کو جاہل ثابت کرنا نہیں تھا اور نہ میں نے آپ کو ایسا سمجھ کر یہ لکھا، غلط فہمی اور اختلاف کسی کو بھی ہوسکتا ہے، مجھے خوشی ہے کہ آپ کی وجہ سے خلافت اور جمہوریت پر پہلی دفعہ اتنی گہرائی سے بات ہوئی ہے اور بہت سے پہلو کھلے ہیں ، میں نے بھی کوشش کی ہے کہ نقطہ اعتراض پر ایسے طریقے سے لکھ سکوں کہ انا کا مسئلہ نہ بن پائے ، امید ہے بات چیت آئندہ بھی سیکھنے سکھانے کے انداز میں ہوگی ۔

  7. Learn from history instead of repeating same mistakes, move forward with separation of religion and state. Keep religion a personal business and make secular laws in a democratic country. As long as these goals are not met, Pakistan will continue to go downhill. LM

  8. بلال صاحب آپ نے ایک بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ اس کا جواب تھوڑا سا لمبا ہوجائے گا لیکن آپ انشاءاللہ مانے گےبات میں وزن ہے۔ 😕 😕 😕
    خلیفہ کیسے منتخب ہوگا
    ـــــــــــــــــــــ
    بھلا یہ بات بھی سمجھنی کیا مشکل تھی ! اور کچھ نہیں تو جمہور پسندوں نے اپنے سسٹم پر ہی غور کرلیا ہوتا!

    مسئلہ ذہن میں یہ الجھا ہوا ہے کہ “خلیفہ” کا انتخاب آخر “جمہوریت” کے بغیر ہوکیسے سکتا ہے !! یعنی ان گنت لوگوں کا ایک ھجوم ھے اور ان میں سے ایک خلیفہ منتخب کرنا ہے یہ ووٹنگ کے بغیر آخر ھوکیسے سکتا ہے !!اب ہر کوشش ہو رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح چناؤ کے اس طریقے کو “اسلامی جمہوریت” ثابت کردیا جائے اور کثرت کو اسکی دلیل بنا دیا جائے! کچھ ظریف تو یہاں تک پہنچے کہ “جمہوریت اور اسلام ” کے فرق کو صرف “اصطلاحات” کا فرق مان بیٹھے ہیں اور کیونکہ یہ دونوں ہی “نظام حکمرانی” ھیں اس لیے ان کی واقعاتی مشابہت سے دھوکا کھا کر یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ ان کی بنیاد میں بھی کوئی فرق نہیں ہے !

    بہرحال اس مضمون کا مقصد ابھی اس فرق کو اجاگر کرنا نہیں ہے بلکہ “جمہوریوں” کو انہی کے نظام سے یہ سمجھانا ہے کہ لیڈر کیسے جنم لیتا ہے !اور آپ خود اپنے نظام کے زیر اثر کسی کو کب لیڈر مانتے ہیں !

    جمہوریت کے ہاں بھی لیڈر بننے کی واقعاتی ترتیب یوں نہیں ہے کہ کوئی شخص پہلے الیکشن جیتتا ہے تو پھر وہ لیڈر کہلاتا ہے ، بلکہ ترتیب یونہی ہے کہ ایک شخص “ملک و قوم” کی خدمت کا جذبہ لے کر اٹھتا ہے ، اس کے کارہائے نمایاں نظر آنے شروع ہوتے ہیں ، آہستہ آہستہ ایک گروپ کی صورت اختیار کرتا ہے ، یہ گروپ ایک طویل سیاسی جدوجہد سے گزرتا ہے ، جو کسی ایک شخص کی قیادت میں ہوتی ہے اور یہ شخص عام طور پر دعوت کنندہ ہی ہوتا ہے ،جو کہ اپنی سوچ و فکر کو پیش کرتا ہے ، اگر بالفرض محال وہ کنگ کی بجائے کنگ میکر بننے کو ترجیح دے ، جیسا کہ برصیغیر پاک و ہند میں بھی اس کی مثالیں گاندھی ، الطاف حسین یا کچھ اور لوگوں کی صورت میں مل جاتی ہیں تو یہ سمجھنا پھر بھی محال ہے کہ کوئی بھی فیصلہ اس کی منظوری کے بغیر ہوتا ہوگا!

    سیکولر یا بے دین سیاسی جماعتیں جو کہ اپنی جماعتوں کے اندر بھی الیکشن کی حامی ہیں ، وہ بھی اپنی جماعت کے ہربندے کو جماعتی قیادت کا حق نہیں دیتے ، بلکہ کارھائے نمایاں یا طویل خدمات سرانجام دینے والے بندے کو جس کی جماعت اور اس کے عقیدے کے ساتھ شک و شبہ سے بالاتر وابستگی ہو اسی کو جماعتی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہیں اور یہ بندے کوئی نامعلوم کارکنان نہیں ہوتے !

    کیا آپ کوئی ایسی سیاسی جماعت بتا سکتے ہیں جو کہ اپنے ہر سیاسی قدم کا فیصلہ اپنے ہر سیاسی کارکن کی رائے جان کر کرتی ہو؟ اور تقریبا ہر معاملے میں الیکشن کرواتی ہو؟ یا کوئی ایسی سیاسی جماعت جس کی “مجلس مشاورت” اس جماعت کے خالص ترین اراکین پر مشتمل نہ ہوتی ہو؟ چاہے ان اراکین کا انتخاب کسی ووٹنگ سے ہوا ہو مگر ان کے خلوص کی گواہی یہ ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ وہ “طویل سیاسی جدوجہد و قربانی ہوتی ہے جو کہ ان کو اپنے حلقے میں معروف بنادیتی ہے اور ان کی وفاداری کو ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر” یہ ووٹ اس خلوص اور سیاسی جدوجہد کو پڑتے ہیں نہ کہ ان کی شخصیت کو!!

    اسلامی سیاسی جماعتیں جو کہ “امیر” کا فیصلہ مجلس شوری کے ذریعے کرتی ہیں ، وہ بھی شوری کے اندر اپنی جماعت کے ھربندے کو “امارت کا ایک امیدوار” تصور نہیں کرتیں ، بلکہ چند کارھائے نمایاں والے اشخاص ہی ان شرائط پر پورا اترتے ہیں اور انہی کو زیربحث لایا جاتا ہے اور یہ “مجلس شوری” بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی جماعتی عقائد کے ساتھ وفاداری شک و شبہ سے بالاتر ہو اور ایک طویل جدوجہد و قربانی کی تاریخ اس پر گواہ ہو!

    ابھی ہم معاملے کی آئیڈیل صورت لے رہے ہیں اس صورت کو ابھی زیربحث نہیں لارہے جس میں مفاد پرست عناصر ،پیسہ ، دھونس و دھاندلی ، جبر ، دھوکا وغیرہ استعمال کرکہ کسی پارٹی کو ہائی جیک کرلیتے ہیں اور اس کو اس کی اساس سے بدل دیتے ہیں !

    آپ چاہے کسی بھی پارٹی سے منسلک ہوں مگر لیڈر کے یہ خدو خال آپ کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں گے ،

    عمران کا جادو اگر آج کام کررہا ہے تو اس کے پیچھے ورلڈ کپ کی فتح ، شوکت خانم میموریل ہسپتال ، ایک مسمراتی شخصیت ،سترہ سال کی طویل سیاسی جدوجہد شامل ھے !کیا ان کے بغیر عمران کو کوئی لیڈر بھی کہہ سکتا ہے !

    یاد رہے کہ تحریک انصاف سے عمران خان نہیں نکلا ، عمران خان سے تحریک انصاف نکلی ہے!

    الطاف حسین کے نام کی مالا اگر آج مہاجر جپ رہے ہیں تو اس کےپیچھے ایک خونیں تاریخ ھے جس میں الطاف پر ھوا بدترین تشدد، اس کی جرآت ،شعلہ بیانی اپنی کیمونٹی کے لیے بے انتہا قربانی کی ایک تاریخ موجود ھے! پھر یاد دلواتا چلوں کہ “ایم کیو ایم سے الطاف نہیں نکلا، الطاف سے ایم کیو ایم نکلی ہے”

    بھٹو وزیر خارجہ سے ایک دم عوام کی آنکھوں کا تارا نہ بن گیا تھا ، اس کی جرأت و شعلہ بیانی کی ادا پاکستانی عوام کے دل میں گھر کر گئی تھی ، بھٹو پیپلز پارٹی سے نہ نکلا تھا بلکہ اس نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی !

    بعینہ اسی طرح گاندھی کانگرس سے نہ نکلا تھا بلکہ کانگرس اس کی وجہ سے مشہور ہے !

    سید مودودی جماعت اسلامی سے نہ نکلے تھے بلکہ جماعت اسلامی سید مودودی سے معرض وجود میں آئی تھی !

    جرمنی کی نازی پارٹی کسی کونے میں پڑی گل سڑ رہی تھی کہ ھٹلر جیسے شعلہ بیان مقرر نے اس کے تن مردہ میں جان ڈال دی !

    ہزارہا مثالیں ہیں ، ایک سے بڑھ کر ایک عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں ، ایک انسان اٹھا اور اس نے اپنی قوم کی فکر ، تاریخ وہ تمدن پر عہد ساز نقوش مرتب کردیئے ،انہی سے آپ کی جماعتیں بنیں یا پارٹیوں کے تن مردہ میں جان پھونکی گئی !

    ان کے ہوتے ہوئے کسی اور لیڈر ، کسی اور رہبر کا تصور کرنا بھی ان جماعتوں کے لیے محال ہے ! یہ لیڈران کسی الیکشن کے زریعے معرض وجود میں نہیں آئے ! بلکہ کسی الیکشن میں ہارنے کہ باوجود ان میں سے کسی کی عظمت اس کی جماعت میں گہنا نہیں سکی اسی کو شائد قدرتی طریقہ انتخاب کہتے ہیں !

    اب اگلے مرحلے پر جانے سے پہلے اس بات کو آپ ہی کے اصولوں کے مطابق سمجھ لیا جائے:

    1) لیڈر کسی پارٹی یا انتخاب کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آتے بلکہ پارٹیاں ان کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہیں یا دوبارہ سے زندہ ہوتی ہیں

    2) لیڈران کا چناؤ کسی قسم کا الیکشن یا کوئی طے کردہ طریق کار نہیں کرتا بلکہ اس کے کارھائے نمایاں کرتے ہیں ، الیکشن صرف اس پر ایک مہر ثبت کرتا ہے

    3) لیڈران کسی قسم کی اکثریت کے محتاج نہیں ہوتے ، بلکہ یہ کسی ایک یونٹ کی کل کہ مختار ہوتے ہیں

    4) جن لیڈران کا انتخاب کیا جاتا ہے ، وہ بھی کارہائے نمایاں سر انجام دینے والے لوگ ہوتے ہیں جن کی اپنے مخصوص یا جماعتی حلقہ میں خوب پہچان ہوتی ہے

    5) وہ مجلس مشاورت یا شوری جو کہ ان لیڈران کو منتخب کرتی ہے اس جماعت کے ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کی وفاداری ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہے

    اب بتایئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ امت کا دامن کسی بھی قسم کے ایسے شخص سے خالی ہے جس کہ کچھ کارہائے نمایاں صرف اور صرف اللہ کے دین کی سرفرازی کے لیے ہوں ؟ یا کہیں بھی ایسے اشخاص کا وجود نہیں ہے جن کی اسلام کے ساتھ وفاداری ہرقسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہو؟ کیا آپ کے گمان میں امت میں اس وقت کوئی لیڈر ہی نہیں ہے !! اگر آپ کا یہ گمان ہے اور اس میں کوئی حیرت بھی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ لیڈر ہونے کا مطلب آپ کے ہاں “جمہوری” ہونے سے مشروط ہے تو پھر یقین کرلیجیے کہ مسلمان لیڈر نہ تو ایسے جنم لیتا ہے اور نہ ہی ایسے پہچانا جاتا ہے !

    ایک جمہوری لیڈر اپنی دانست میں اپنی جماعت ،گروہ یا عوام کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے اٹھتا ہے اور ہر اس امر کا خیال رکھتا ہے جو کہ اسے اپنی جماعت، گروہ یا عوام میں مقبول بنادے چاہے اس کے لیے اس کو رب العزت کی ناراضگی ہی کیوں نہ مول لینا پڑے ، اور ایک اسلامی لیڈر اللہ کے دین کے لیے اٹھتا ہے اور انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ، وہ ہر اس امر کا خیال رکھتا ہے جو کہ اللہ کی نظروں میں غیر مقبول ٹہرے چاہے اس کے لیے انسانوں کہ ایک گروہ میں وہ ملامت زدہ ہی کیوں نہ ٹہرے اور بدلے میں اللہ مسلمانوں کے دلوں میں اس کا پیار ڈال دیتے ہیں !یہ خود ، اس کی جماعت ، اس کا گروہ ، اس کے مشیران ،اپنی مسلسل جدوجہد و قربانیوں کی وجہ سے ھرقسم کے شک وشبے سے بالاتر ہوجاتے ہیں ، ان کا فیصلہ امت میں قبول عام کی سند حاصل کرجاتا ہے ان کی شوری ہی “اسلامی شوری” ہوتی ہے اس کے کارکنان ہی “اسلامی کارکنان” ہوتے ہیں اسی کی جمہوریت ہی “اسلامی جمہوریت” ہوتی ہے اور اسی کا مقررکردہ خلیفہ ہی “اسلامی خلیفہ” ہوتا ہے خلافت علی منہاج النبوہ کا دعوے دار!

    یہ اسی نیچرل پروسیس سے نکلتا ہے جہاں سے آپ کے لیڈران جنم لیتے ہیں مگر اس کے مقاصد میں اس کی بنیاد میں فرق ہوتا ہے ، اس لیے ایک لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہونے کے باوجود اسلام کی نظر میں “نفس کے پجاری” سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور ایک اللہ کے دین کی تابعداری کی وجہ سے امت کا سرخیل بن سکتا ہے !

    اور اس خلیفہ کو نہ کسی ووٹنگ کی ضرورت ہوگی اور نہ کسی اور مصنوعی عمل کی ! وہ خلیفہ ہوگا جس کے کارہائے نمایاں پوری امت پر کھلے ہوں گے نہ کہ کوئی مجہول الحال شخص جس کو اپنی لیڈری کے لیے بھی چند ٹکے کے ووٹوں کی ضرورت ہو جس کہ لیے وہ کفر سے بھی سمجھوتہ کرنے پر تیار ہو !!

  9. لات مارنی چاہئیے ایسے مزہبی نظاموں کو جو نسل در نسل انسانی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں صرف موت اور ڈنڈے کے ذرئعیے ہی حکومت کی جاتی ہے۔ باقی قومیں عقل پکڑگئیں۔

    1. مذہبی نظاموں کو لات مارنے کا کہہ کر آپ نے اپنے مذہب کی طرف اشارہ کردیا۔ چلیں آپ کے نام سے جو آپکے مسلمان ہونے کا شبہ ہو رہا تھا ہو گیا۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *