بسم اللہ الرحمن الرحیم
جس چیز کا ڈر تھا، آخر وہی ہوا۔ میں نے اس بارے میں احتجاج کرتے ہوئے پہلے بھی ایک تحریر لکھی تھی جس میں خبروں کے مطابق پچھلے دنوں گجرات میں تقریباً پندرہ ہزار (15000) ”جعلی اسلحہ لائسنس“ پکڑے جانے کی بات کی تھی۔ اب بات نکلی ہے کہ یہ پندرہ ہزار نہیں بلکہ تیرہ ہزار لائسنس تھے۔ خیر یہ دو ہزار کا فرق ہمارے میڈیا کی ”بہتر سروس“ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اکثر یہ گنتی کی غلطی کر جاتے ہیں یا پھر ہو سکتا ہے کہ دوہزار سے کوئی مک مکا ہو گیا ہو۔ چلو ہم فی الحال یہی مان لیتے ہیں کہ 13000 ہی تھے۔ خیر جب یہ سکینڈل سامنے آیا تھا تو جیسے ساری حکومتیں کرتی ہیں ویسے ہی ہماری حکومت پنجاب نے بھی کیا یعنی انکوائری بیٹھا دی۔
کچھ دن پہلے انکوائری یعنی وزیرِ قانون پنجاب رانا ثناءاللہ کی زیر صدارت اجلاس میں ان 13000اسلحہ لائسنس کو ناجائز قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا۔ منسوخ شدہ اسلحہ لائسنس اور ان پر جاری ہونے والے اسلحہ کو پندرہ یوم میں رضاکارانہ طور پر جمع کروانے کا حکم جاری کیا۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ فراڈ سرکاری ملازمین نے کیا اور سزا عوام کو مل رہی ہے۔ اب عام شہری کہاں جائے؟ جس نے اسلحہ لائسنس کی تقریبا سات سے آٹھ ہزار روپے فیس اسلحہ برانچ کو ادا کی تھی، پھر ڈاکخانہ میں انداراج کروایا تھا اور پھر اس لئے اسلحہ خریدا کہ اس کے پاس لائسنس موجود ہے۔ یہ بات آج کی نہیں بلکہ کئی لوگ تو دو دفعہ اسلحہ لائسنس کی ڈاکخانہ سے تجدید بھی کروا چکے ہیں۔
تیرہ ہزار لائسنس کوئی ایک دن میں نہیں بنے بلکہ یہ معاملہ دو سال پہلے کا ہے اور پتہ نہیں کتنے لمبے عرصہ سے یہ کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ اب جو لائسنس منسوخ کر رہے ہیں وہ اس وقت کہاں تھے جب یہ کھیل چل رہا تھا؟ کوئی ان سے پوچھے جناب آپ کو حکومت میں آئے اتنا عرصہ ہو گیا ہے اور اتنا بڑا سکینڈل اب جا کر آپ کو پتہ چل رہا ہے۔ یہ کس کی نالائقی ہے؟ کیا یہ بھی ان تیرہ ہزار کی نالائقی ہے جو آپ کے بنائے ہوئے ادارہ میں گئے اور آپ کے کلرک صاحب نے کہا اتنی فیس اور فلاں فلاں کاغذات جمع کرواؤ، اور فلاں دن آ کر اپنا لائسنس لے جانا۔ یا پھر کہیں ایسے تو نہیں تھا کہ اسلحہ برانچ، اس کے اعلیٰ عہدیدار اور اسلحہ ڈیلر سب مل بانٹ کر کھا رہے تھے۔حکومت اتنی دیر تماشہ دیکھتی رہی اور اب لائسنس منسوخ کر کے تیرہ ہزار شہریوں کو تماشہ بنا رہی ہے۔ ایک طرف لائسنس کی فیس کھائی دوسری طرف اسلحہ ڈیلروں کا اسلحہ فروخت کروایا اور اب لائسنس منسوخ، فیس ہضم اور اسلحہ مال خانے۔ مال خانے بھی تو کچرا ہی پہنچنا ہے اور اچھا اسلحہ حکومت کے افسران نے ہی پی جانا ہے۔ ساری بات بڑی عجیب ہے یعنی سب کچھ ہو گیا، سانپ مر گیا، لاٹھی بھی نہ ٹوٹی اور نظام پھر ”شفاف کا شفاف“ اور ماری گئی غریب عوام۔ ہمیں آزاد ہوئے 63سال ہو گئے ہیں لیکن ہماری جمہوریت آج بھی شہنشاہوں جیسے فیصلے کر رہی ہے۔
سارا معاملہ بالکل صاف ہے۔ اسلحہ اور اسلحہ لائسنس کا ریکارڈ بھی موجود ہے، ڈاکخانہ میں اندراج اورتمام اسلحہ لائسنسوں کی ڈاکخانہ سے ایک یا دو بار تجدید فیس کے ساتھ ہو چکی ہے۔ بس اسلحہ لائسنس بنواتے ہوئے جو فیس تھی وہ اسلحہ برانچ کا عملہ خود کھا گیا تھا اور اسی بات کو لے کر حکومت نے شریف شہریوں کے لائسنس منسوخ کر دیئے ہیں اور ان کا اسلحہ ضبط کر رہی ہے۔
ایک لمحہ کے لئے مان لیتے ہیں کہ اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے والا قدم بالکل ٹھیک ہے تو کوئی ان تیرہ ہزار کو بھی تو بتائے کہ ان کا پیسا جو سرکار کے ملازمین کھا گئے ہیں وہ کون واپس دلوائے گا؟ ڈاکخانہ سے لائسنس کی تجدید کے لئے جو فیس حکومت کو ادا کی گئی تھی، کیا حکومت وہ فیس واپس کرے گی؟ اسلحہ مال خانے جانے سے جو اسلحہ کی قیمت ہے وہ کون دے گا؟ کیا حکومت ان تیرہ ہزار کو اتنا وقت اور ساتھ دے سکتی ہے کہ وہ اسلحہ واپس اسلحہ ڈیلروں کو فروخت کر دیں؟ لیکن ایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ اگر اسلحہ واپس اسلحہ ڈیلروں کو فروخت کرنے کا کہا گیا تو اسلحہ ڈیلر بہت شور مچائیں گے اور شاید حکومت یہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ بس عوام کو ہی دبا سکتی ہے۔ اگر حکومت کہے کہ اس کا کوئی قصور نہیں بلکہ عوام نے خود ہی غلطی کی ہے تو پھر میرے سیدھے اور سا دے سے سوال ہیں کہ اسلحہ برانچ کس کی ہے؟ اسلحہ برانچ کا عملہ کس نے بھرتی کیا تھا؟ اتنا بڑا کام ہوتا رہا اور اسلحہ برانچ کے انچارج تک کو پتہ نہ چلا؟ اینٹی کرپشن والے کہاں تھے؟ تقریباً دو سال حکومت کہاں سو رہی تھی؟
”حاکمِ اعلیٰ “کیا اب ایسے حالات کو ٹھیک کرنا بھی عوام آپ کو سیکھائے گی؟
نوٹ:- اس تحریر کو صوبائی تعصب کا رنگ ہرگز نہ دیا جائے۔ یہ مسئلہ جتنا پنجاب کا ہے اتنا ہی پاکستان کا بھی ہے اور پاکستان ہم سب کا ہے۔
پاکستان زندہ باد
گستاخی کی معذرت چاہوں گا۔
یہ تیرہ یا پندرہ ہزار لائسنس والے حضرات سب جمع ہوکر عدالت میں کیوں نہیں جاتے؟
اگر اتنا نہیں کر سکتے تو جو ان کے ساتھ ہو رہا ھے۔ٹھیک ہی ہو رہا ھے۔
یاسر خوامخواہ جاپانی کے تبصرہ کا جواب
ارے محترم یہ گستاخی نہیں بلکہ ایک اچھا مشورہ ہے۔ آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے عدالت جانا چاہئے اور نہیںجاتے تو جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہی ہو رہا ہے۔ ویسے میں تو ان تیرہ یا پندرہ ہزار کو بلکہ ہر اس کو آگاہ کرنا چاہ رہا ہوں جو چپ چاپ رہ کر اپنا تماشہ بناتے رہتے ہیں اور کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے حق کے لئے کم از کم آواز تو بلند کرو۔ دراصل ہماری اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ کیا اس کا حق ہے اور کیا نہیں۔ اسلحہ کے معاملے میں تو ویسے ہی لوگ ڈرتے ہیں کہ کہیں الٹا نہ پڑ جائے اور جیل کی ہوا نہ لگ جائے اس لئے لوگ آواز نہیں اٹھاتے۔
خیر ہم تو صدا لگا سکتے تھے وہ اس امید سے لگا دی کہ کبھی نہ کبھی تو یہ عوام جاگے گی۔
سلام دوستو
میرے خیال سے عدالت جانے سے بھی کچھ نہیں ہونے والا
کیونکہ کون کس سے پوچھے اور کیا پوچھے ؟،کون کس کے جرم سے پردہ اٹھائے کون کس کو سزا دے ، سب ایک جیسے ہیں عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال نہیں کیا جا رہا تھا کہ اگر وہ بحال ہوگئےتو صدر پاکستان کے جرائم کی فائلیں کھل جائیں گی ،وہ بحال بھی ہوگئے لیکن فائلیں کسی کی نہیں کھلیں، سب سودے بازی کا کھیل ہے. عدالت بھی کچھ نہیں کر سکتی اور نہ ہی آج تک کچھ کیا ہے جس کی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے ہیں
سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال ، دہشت گرد مجرمان کو سزا نہیں دی جا سکی ڈبل شاہ جس نے نہ جانے کتنے گھروں کو زندہ در گور کر دیا تھا وہ جیل میں آرام کی زندگی بسر کر رہا ہے ، جامعہ حفصہ ،وزیر ستان ، اور سوات میں ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے پاکستانیوں کے ذمہ دار یورپ کی رنگین زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں ، بے نظیر کے قاتلوں کو کیا سزا دی گئی ہے
سب ڈرامے بازی ہے اب کوئی انقلاب ہی سہی کرے گا سب ..اور انقلاب ……….
پتا نہیں میرے پاس تو لفظ ہی نہیں ہیں
چھڈو جی مٹی پاؤ۔ آئیندہ یہ تیرہ ہزار امریکہ سے تصدیق کروالیں کہ بابا یہ حکومتی اہلکار اور انکے مشاغلِ دیگر اصلی ہیں یا نہیں۔ کیونکہ اس ملک نے تو یہ چال پکڑ لی ہے کہ جب تک حکمران بھی منظوری کی امریکی سند خاص حاصل نہ کر لے دنیا اور پاکستان کے بارے دیگر اقتدار سے محروم رہ جانے والے سیاہ ستدان بھی اسے پاکستان کا حکمران ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
اسکا ایک دیسی علاج یہ بھی ہے کہ تیرہ بخت اہو ہو یعنی تیرہ ھزار ان ملازمین کو ڈہوند نکالیں اور شتر مرغ بنا کر انکی عوامی جوت پریڈ کریں تو کم از کم دل کے پھپولے جلنے سے دل ہلکا ہوجائے گا اور اگر اس کار خیر میں سرکار مداخلت کرے تو اسکا ایک ہی مطلب بنتا ہے کہ یہ کام یعنی جعل سازی سرکار کی عام اجازت سے ہوئی ہے۔ اس صورت بلکہ ہر صورت میں ایسے لوگوں میں خواہ کچھ چند درجن لوگ ہی انجمن صدماں بناتے ہوئے نہ صرف اپنے اسلحہ جات کے الائسنس درست اور جائز کروانے کا مطالبہ بزریعیہ عدالت کریں کیونکہ ایسے سرکاری ملازمین کی ہیرا پھیرای کو سرکار کی ہیرا پھری سمجھی جائے کیونکہ وہ ملازمین سرکار کی نمائندگی ۔ سرکاری دفاتر ، سرکاری عہدے اور سرکاری سیٹ اپ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو لوٹتے رہے ۔ بلکہ سرکار پاکستان سے اس ضمن میں ہونے والی کوفت اور پریشانی کا معاوضہ بھی طلب کریں۔
اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو ۔۔۔ چھڈو جی مٹی پاؤ۔ ایکآسان اور ہر فن مولا حل تو موجود ہی ہے۔
اس چھڈو جی مٹی پاؤ والی ذہنیت ہی نے تو پاکستان اور اس کی عوام کو اس حال کو پہنچادیا ہے :eyeroll: