ایک پرانا لطیفہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہوا تو امریکیوں نے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اگر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پاکستان میں ہوتا اور تباہ ہوتا تو حکومتِ پاکستان کیا کرتی؟ جواب: ”ڈبل سواری“ پر پابندی لگا دیتی۔ اب اس جواب کو تھوڑا جدید کر لیں، جواب: ڈبل سواری، موبائل نیٹ ورک اور سوشل میڈیا پر پابندی لگا دیتی۔
ایک دفعہ جنگل میں الیکشن ہوئے اور بندروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بندر بادشاہ بن گیا۔ شیر کو اپنی اس ہار پر بہت افسوس ہوا۔ ایک دن اس نے راہ چلتے ہرنی کا بچہ پکڑ لیا۔ ہرنی دوڑی دوڑی بادشاہ (بندر) کے دربار میں پہنچی اور فریاد کی کہ شیر نے میرا بچہ پکڑ لیا ہے۔ بادشاہ سلامت انصاف کیجئے اور اسے چھڑائیے۔ بندر نے کہا تم فکر ہی نہ کرو ابھی چھڑا دیتا ہوں۔ یوں بندر نے اپنی دوڑیں لگا دیں۔ شیر کے پاس جانے یا کوئی مناسب حکم نامہ جاری کرنے کی بجائے، بڑی تیزی سے ایک درخت سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے ہوئے پورے جنگل کا چکر لگایا۔ پھر تھک ہار کر ہرنی کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، دیکھو میں نے تو بہت جان مار کر دوڑ لگائی ہے، اپنی ساری توانائی لگا دی ہے، اب بھی اگر شیر تمہارا بچہ نہ چھوڑے تو بھلا میں کیا کر سکتا ہوں، شیر یقیناً دہشت گرد ہے۔ مزید بادشاہ بندر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام دہشت گرد شیر کا کیا دھرا ہے، جو میری حکومت گرانا چاہتا ہے۔ میں نے بہت دوڑ لگائی جو آپ کے سامنے ہے۔ اب ہم نے بندروں کی کمیٹی بنا دی ہے اور مجرموں کو جلد ہی کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔
تقریباً ہر دور میں ہمارے حکومتی بندروں کا حال بھی کچھ اس بندر جیسا ہی رہا ہے۔ جس سمت میں دوڑ لگانی چاہئے اس طرف ذرہ برابر بھی نہیں جاتے بلکہ بندر کی طرح فضول دوڑ لگاتے ہوئے ڈبل سواری پر پابندی اور اب زیادہ سے زیادہ موبائل نیٹ ورک اور سوشل میڈیا بند کر دیتے ہیں۔ جتنی ہماری حکومتیں ہر کام پر کمیٹیاں بنا چکی ہیں اور ان کمیٹیوں کے ممبران کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ اگر ہر کمیٹی کے ممبر مختلف ہوں تو پھر یقین کرو پوری عوام کمیٹیوں کی ممبر بن جائے۔ مگر کمیٹیاں بنتی ہیں، ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں بندے جاتے ہیں۔ الاؤنس ملتے ہیں اور پھر فائلیں بند، غریب عوام کا پیسہ ہضم۔ اس ملک کا ایک المیہ تو یہ بھی ہے کہ چند گنے چنے اچھے عہدیداران کے علاوہ جو جتنا بڑا بندر ہے وہ اتنے بڑے عہدے پر جا بیٹھتا ہے۔
کافی عرصہ پہلے ایک خبر پڑھی کہ حکومت پاکستان نے ایک بڑے پروجیکٹ پر کروڑوں روپے لگانے ہیں جس کے تحت بڑے بڑے سرکاری افسروں کو بلیک بیری موبائل لے کر دیئے جائیں گے تاکہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی اچھی خدمت کر سکیں۔ اب پتہ نہیں اس پر عمل ہوا تھا یا نہیں مگر جب میں نے یہ خبر پڑھی تھی تو مجھے بہت ہنسی آئی کہ وہ افسر جو سرکاری کاموں کی تفصیلات ای میل وغیرہ کرنے کی بجائے اپنا ”ٹی اے ڈی اے“ بنانے کے چکر میں سرکاری گاڑیاں دوڑاتے رہتے ہیں، ان کو بلیک بیری کی بجائے ”کھوتے“ لے کر دو۔ ویسے بھی گدھا کیا جانے ادرک کا سواد۔
پچھلے دنوں سننے میں آیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا نے کئی مہینے دن رات محنت کے بعد ووٹر فہرست تیار کیں۔ میں کوئی تیس مار خاں نہیں مگر دس منٹ میں ”کیوری“ لکھ کر دیتا ہوں۔ اگر نادرا کی ڈیٹابیس کسی بندے کے پتر ادارے یا ڈویلپر نے بنائی ہے تو پھر ہر علاقے کے حساب سے اور ووٹ دینے کی عمر کے مطابق فہرستیں خودکار نظام کے تحت بن جائیں گی۔ آپ اس دعوی کو کوئی بڑی بات نہ سمجھئے بلکہ جو بھی تھوڑا سا بھی ڈیٹابیس کے بارے میں جانتا ہے وہ یہ کام چٹکیوں میں کر سکتا ہے۔ مگر حیرانی تب ہوتی ہے جب یہ لوگ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی اپنے ”بندر“ دوڑاتے ہیں اور عوام کو بتاتے ہیں کہ دیکھو ہم نے کتنی دوڑ لگائی۔
آپ خود اندازہ کرو کہ جن لوگوں کے پاس ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی کوئی سب ڈومین یا کسی ڈومین کا کوئی خاص یوآرایل بند کرنے کا نظام نہیں انہیں بندر نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ موبائل نیٹ ورک کے لائسنس تو جاری کر دیئے مگر جنہوں نے مستقبل میں ہونے والے بے ہنگم موبائل نیٹ ورک پر ذرہ برابر بھی غور نہ کیا انہیں بندر نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
ایک ہندی فلم ”اے وینس ڈے“ میں ایک جگہ ایک بڑے افسر کو ایک عام شہری کہتا ہے کہ ”انٹرنیٹ پر بم ٹائیپ کر کے سرچ مارئیے، 352 سائیٹس ملیں گی کہ بم کیسے بنایا جاتا ہے، کیا کیا چیزیں استعمال ہوتی ہیں، ساری معلومات ملی گی، مفت میں“۔
کچھ ایسا ہی ہم اپنی حکومت کو کہتے ہیں کہ پاگلو! کاش جعلی ڈگریوں کی بجائے تھوڑی سی معلومات حاصل کر لیتے تو آپ کو پتہ ہوتا کہ ڈبل سواری پر پابندی لگانے یا موبائل نیٹ ورک اور سوشل میڈیا بند کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بچہ بچہ پراکسی استعمال کرنا جانتا ہے اور پابندی کے باوجود پراکسی کے ذریعے سوشل میڈیا چلا لیتا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر تلاش کرو تو ”ہزاروں“ سائیٹیں ملیں گی جو نئے سے نئے رابطے کے طریقے بتائیں گی، مفت میں۔ موبائل نیٹ ورک بند بھی کر دو تو پھر بھی کمیونیکیشن کے ایک ہزار ایک طریقے موجود ہیں اور تو اور ہال روڈ لاہور چلے جاؤ۔ نہایت ہی سستے ایف ایم ٹرانسمیٹر کے ایسے ایسے بنے بنائے سرکٹ ملیں گے جس سے چٹکیوں میں پورا ایف ایم ریڈیو سٹیشن بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ رنگ رنگ کی اور بہت طاقتور واکی ٹاکی مل جائیں گی۔ دور جانے کی ضروری نہیں، پی ٹی سی ایل کے ساتھ زیادہ طاقت ور کارڈلیس سیٹ لگا کر سو دو سو کلومیٹر دوری سے بھی بات کی جا سکتی ہے۔ زیادہ طاقت والے وائی فائی اومنی اینٹینے لگا کر بذریعہ لین یا انٹرنیٹ بات چیت کی جا سکتی ہے بلکہ ویڈیو تک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تو چند مشہور اور عام طریقے بتائے ہیں جبکہ کمیونیکیشن کے دیگر بے شمار اور محفوظ طریقے سستے داموں مل جاتے ہیں۔
اگر آپ کو لگے کہ میری ان باتوں سے کوئی شرپسند آئیڈیا لے کر خرابی کر سکتا ہے تو عرض یہ ہے کہ یہ کوئی راز کی یا راکٹ سائنس باتیں نہیں بلکہ یہ تو وہ باتیں ہیں جو ایک معمولی سا ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والا بھی جانتا ہے، مگر ہمارے بندروں کو معلوم نہیں۔ بالفرض اب اگر موبائل نیٹ ورک والوں نے بندروں کو چنے یا مکئی ڈالنی چھوڑ دی ہے تو اس میں عوام کا تو کوئی قصور نہیں۔ کوئی ان بندروں کو بتائے کہ ڈبل سواری پر پابندی یا موبائل نیٹ ورک اور سوشل میڈیا بند کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ کوئی تو انہیں سمجھائے کہ بندروں جیسی دوڑیں لگانے کی بجائے کوئی انسانوں والے کام کرو۔ مانا کہ عوام کی اکثریت لمبی تان کر غفلت کی نیند سو رہی ہے اور اسے ابھی تک اپنے حق کا بھی نہیں پتہ مگر پھر بھی عوام کے ”صبر“ کا امتحان نہ لو۔
بلال بھائی، لگتا ہے کہ آپ واشنگ مشین کے ٹائمر پر بھی پابندی لگوا کر ہی رہیںگے کہ ٹائم بم کی اہم ترین شئے یہی تو ہوتا ہے۔
بلال بھائی اگر آپ نے ایک اور ایسا کالم لکھ دیا تو رحمان ملک آپ پر بھی پابندی لگا دے گا کہ یہ ہی دہشت گردوں کو ٹرینگ دینے والا
بالکل ٹھیک فرمایا
فحش فلمیں دیکھنے کے علاوہ ان کو کمپیوٹر کا کوئی استعمال آتا ہو تو کریں بیچارے-پر قصور انکا نہیں ہمارا ہے آنے والے ہیں الیکشن اگلے پانچ سال تیار رہیں فیس بک پر الو کا پٹھہ قسمی گروپ شئیر کرنے کو
بس جی تیاری رکھیںعوام ایکا کرے اور ان کو ناک آوٹ کردے۔۔۔ایسوںکی درستی کا بس یہی اک راستہ ہے۔
ایک بار پاکستان جا رہا تھا۔۔۔جاپان کے ائیر پورٹ پر پاکستان جانے والے شکاری گھوم رہے ہوتے ہیں بغیر پلاننگ کے سامان خوب خرید لیتے ہیں جو مسافر کی مفت لے جانے کی مقدار سے زیادہ ہو تا ہے۔ظاہر ہےپی آئی اے بھی پچیس کلو کے بجائے ہر بندے کا سوکلو سامان مفت میں نہیں لے جاسکتی۔۔تو ایک شکاری کے ہتھے چڑھ گیا۔۔بچوں کے کھلونے وغیرہ تھے جو میرے پاسپورٹ پر ہوائی جہاز پر لوڈ ہوگئے۔
ریموٹ کنٹرول ہوائی جہاز ،گاڑیاں، اور واکی ٹاکی۔۔۔۔۔۔۔۔بس جناب تین گھنٹے ائیر پورٹ پر خوامخواہ خوار کہ حساس آلات لیکر آیا ہوں۔ 😆
بہت خوب اعلیٰ!
میرے خیال میں تو اس بار بھی الیکشن کے بعد کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ہاں ایک تبدیلی ضرور آئے گی کے بندر اپنی جگہ تبدیل کر لیں گے۔
ارے بھائی ۔۔۔ یہ رائمن ملک کو ہمارے اداروں نے جن علاقوں کے حالات خراب تھے جیسا کہ کٹی پہاڑی وغیرہ ، گوگل ارتھ پر دکھلائے تھے۔۔ بس جناب انھوں نے کیا تعریفیں کی ان کی پریس کانفرنس کے دوران۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم لوگوں کی تو ہنسی نہیں رک رہی تھی۔
مجھے لگ رہا ہے کہ اب آپ کی خیر نہیں ۔اپنے پر بچا کر رکھیں کہیں جل ہی نہ جائیں۔یہ بندر تنقید سننے کے عادی نہیں ۔
اس کے علاوہ ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ ان بندروں سے کیسے جان چھڑائی جائے۔ ہمیں لسانی، فرقہ پرستی ،برادری ازم ،اور دیگر تمام تعصبات سے پاک ہوکر انفرادی کے بجائے اجتماعی اور قومی سوچ اپنانا ہوگی ۔میرے خیال میں الیکشن کا سسٹم تبدیل ہونا چاہیے۔صدر اور وزیراعظم کو براہ راست عوام سلیکٹ کریں۔یہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر ذاتی مفادات کیلئے ہمیں بیچ دیتے ہیں
بڑے تپی ہوئی تحریر ہے ، مگر ہے سچ ۔ لیکن بندر تو بندر ہیں ۔ اور ارتقاء بڑا طویل اور سست عمل ہے 🙄
bilkul sachayi hai iss story main
بلال بھائ۔ ۔ ۔ کہیں آپ کے بلاگ پر بھی پابندی نہ لگ جائے ۔ ۔ 😆
کہانی بالکل حقیقت بیان کر رہی ہے ۔ ۔ ۔
بھت اچھا لکھا ھے آپ نے!!!
mat bhoolen ke bandar badshah is liye bana ke bandar taadad me ziyada the agar bandar ko badshah nahi banana to muashre me bandron ki tadad ko kam karna prega jabke taleem ek aisi shay he ke bandar ko bhi bande ka puttar bana deti he.
آپ نے بڑی اچھی عحریر لکھی ہے۔ سیا ست کا عنصر تھو ڑا سا غالب ہے. احتیا ط کر یں۔ آپ جیسا سپوت صد یوں میں پیدا ہوتا ہے۔
پڑھ کر مزا آیا ۔ اسی طرح لکھنا جاری رکھیں۔