سوا تین گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد ہم دوپہر کے سوا دو بجے راما جھیل کنارے پہنچ گئے۔ میں جھیل کے کنارے پڑے ہوئے ایک پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور ٹھنڈ کافی زیادہ تھی۔ جیکٹ پہلے ہی پہن رکھی تھی مگر اب گرم ٹوپی کی ضرورت بھی محسوس ہونے لگی۔ میں نے جیب سے ٹوپی نکالی اور پہن لی۔ ساتھ ہی موبائل نکالا اور جی پی ایس چلاتے ہوئے راما جھیل کی سطح سمندر سے بلندی دیکھنے لگا۔ لے دس! چل چل کر ”مت وج“ گئی ہے اور ہم نے ٹریکنگ کے دوران ساڑھے چار کلومیٹر فاصلہ طے کیا ہے مگر بلندی صرف 325 میٹر چڑھے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ راما کا میدان سطح سمندر سےتقریباً 3175 میٹر بلند ہے اور راما جھیل 3500 میٹر بلند ہے۔
راما جھیل سیف الملوک کی نسبت تھوڑی چھوٹی بھی تھی اور ساتھ ساتھ خوبصورتی میں بھی سیف الملوک سے کم تھی۔ ویسے بھی جھیل سیف الملوک کسی زمانے میں پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں شمار ہوتی تھی۔ خیر اس وقت ہمارے لئے یہی خوشی کافی تھی کہ ہم نے راما جھیل بھی دیکھ لی۔ میرے سمیت زیادہ دوست جھیل کے اسی کنارے پر ہی رہے جس پر پہنچے تھے مگر عبدالستار اور میر جمال جھیل کے دوسرے کنارے تک گئے۔ ہم نے تصاویر بنائیں، جھیل کنارے بیٹھے گپ شپ کی۔ جھیل کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی کہ ”وڈی توں جھیل“، مگر خود شرمندہ ہو گئے کیونکہ جھیل نے ہمیں جواب دیا کہ اگر میں اس قابل نہیں تھی تو پھر اتنا مشکل فاصلہ طے کر کے کیوں آئے ہو؟ شکر کرو میں نے تمہیں زیارت کا شرف بخشا ہے۔ مجھ پر سایہ کیے ہوئے نانگا پربت کے سلسلے پر ذرہ غور تو کرو۔ جھیل کا اتنا کہنا تھا کہ عباس نے فوراً دوربین نکالی اور ایک وسیع سلسلے کو چھوٹی سی دوربین سے دیکھنے لگا۔ بلندو بالا پہاڑوں پر برف ایسے پڑی ہوئی تھی جیسے کپ میں آئس کریم، کہیں گیند تو کہیں ”سلائس“ کی صورت میں پڑی ہوتی ہے اور اس میں سے بخارات اٹھ رہے ہوتے ہیں۔ صورت تو آئس کریم کپ جیسے تھی مگر یہ کپ ہماری سوچوں سے بہت بڑا تھا۔بخارات تو اٹھ رہے تھے مگر اس کے سامنے ہماری اوقات چیونٹی سے بھی کم تھی۔ برفانی پہاڑوں پر ہوائیں چل رہی تھیں اور ہماری سوچیں انہیں ہواؤں کے دوش پر سفر کر رہی تھیں۔ واہ میرے مالک تو نے کیا کیا اور کتنا بڑا بڑا بنا دیا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر حضرت انسان بنا دیا جو ان خوفناک اور موت کے سوداگر پہاڑوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں مگر پھر بھی انہیں اپنے قدموں تلے روند دیتا ہے۔
میری سوچوں کو مزید ٹھنڈی اور تیز ہوا نے پاش پاش کیا تو میں وہاں سے اٹھ کر چند پتھروں کی اوڑھ میں جا بیٹھا۔ ابھی تھوڑی دیر بیٹھا تھا کہ عبدالستار اور میر جمال جھیل کا چکر لگانے کے بعد واپس آ چکے تھے۔ ابھی ہمیں جھیل پر پہنچے آدھا گھنٹا ہی ہوا تھا۔ ٹھنڈ زیادہ ہو رہی تھی اور بادل بھی بن رہے تھے۔ اس لئے ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا اور چل پڑے۔ اب کیونکہ اترائی تھی تو سانس نہیں پھولتا تھا مگر ٹانگوں کے ایک ایک جوڑ پر زور پڑتا۔ صرف ایک جگہ دو تین منٹ کے لئے سانس لیا اور پھر چل پڑے۔ جاتے ہوئے جو فاصلہ ہم نے سوا تین گھنٹے میں طے کیا تھا واپسی پر وہی فاصلہ بڑے آرام سے ایک گھنٹے میں طے کر لیا۔
ہم نے نالے کا پُل عبور کیا اور ساتھ ہی ایک پتھر پر سر رکھ کر لیٹ گئے۔ ہم بہت تھک چکے تھے، آسان الفاظ میں ہم ”فنا“ ہو چکے تھے۔ صبح کچھ کھایا بھی کم تھا، اوپر سے ٹریکنگ کی وجہ سے کافی بھوک لگ چکی تھی۔ میرا دل کر رہا تھا کہ جہاں لیٹا ہوا ہوں ادھر ہی کوئی خیمہ اوپر لگا دے اور میں ادھر ہی آرام کروں۔ جہاں ہمارے خیمے لگے ہوئے تھے، وہ جگہ زیادہ دور تو نہیں تھی مگر اب ایک قدم چلنے کو بھی دل نہیں کر رہا تھا۔ ہم پانچ لوگ تھے اور ہمارے دو ساتھی سلیم اور نجم ابھی پیچھے تھے۔ دیکھا تو وہ بھی نالے کے اُس پار بیٹھے آرام کر رہے تھے۔ ہم میں سے کسی نے کہا اٹھو چلتے ہیں، اگر یہاں آرام اور زیادہ کیا تو پھر اٹھنے کو بھی دل نہیں کرے گا۔ خیر ہم چل دیئے۔ اب بس یہی تھا کہ کسی طرح خیموں تک پہنچیں اور آرام کریں۔
کسی کو کسی کی ہوش نہیں تھی اور ہم خیموں میں لیٹے ہوئے تھے۔ بھلا ہو میر جمال کا جو سب کو پانی پلا رہا تھا۔ عباس اور میں ایک ہی خیمے میں تھے جب میں پانی پینے لگا تو عباس نے بتایا کہ میڈیکل کِٹ میں سے فلاں پُڑی نکالو اور پانی میں ملا کر پی جاؤ۔ اس سے توانائی جلد بحال ہو جائے گی۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ پوچھنا اور پُڑی پر لکھے ہوئے کو پڑھنا بھی گوارہ نہ کیا اور پی گیا۔ اتنے میں سلیم اور نجم بھی پہنچ گئے۔ ایک خیمے سے آواز آتی کہ ”اوہ! میرا کچھ کر لو“۔ دوسرے سے آواز آتی کہ ”میں مر چلا جے، مینو چُھری پھیر لو“۔ کوئی کہتا کہ پولیس والوں کا لتر لاؤ اور سب کو ”پانجہ“ لگاؤ تاکہ ٹانگوں کو کوئی ہوش آئے۔ 🙂
یہ ہمارے ٹور کی پہلی اور سب سے آسان ٹریکنگ تھی۔ یہاں پر یہ حال ہوا ہے تو نانگا پربت کے بیس کیمپ تک پہنچنے پر کیا ہو گا۔ میرے، عباس اور سلیم کے علاوہ باقی دوست ہمت ہار رہے تھے بلکہ عباس کی باتوں سے بھی لگ رہا تھا کہ وہ سوچ رہا ہے کہ بیس کیمپ جانا جھوٹ ہی ہو۔ میں خود بھی بہت تھک چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کیا مصیبت گلے پڑ گئی ہے مگر نانگا پربت کے ”لاتوبو بیس کیمپ“ تک جانا میری درینہ خواہش تھی اور یہ خواہش میری تھکاوٹ اور سوچ پر بھاری تھی۔ اس لئے میں نے ہمت نہیں ہاری تھی۔
اس دوران ہم نے تھوڑی بہت پیٹ پوجا کی۔ آخر کار شام کے ساڑھے پانچ بجے کے قریب فیصلہ ہوا کہ اب یہاں سے چلتے ہیں اور تین چار گھنٹے کا فاصلہ طے کرتے ہوئے براستہ استور ”تری شنگ“ پہنچتے ہیں۔ سامان کی پیکنگ ہوئی۔ گاڑی میں رکھا اور راما کو خیر باد کہتے ہوئے چھے ساڑھے چھے کے قریب استور پہنچے۔ استور پہنچتے ہی عباس کہنے لگا کہ آج رات ادھر ہی رہتے ہیں اور کل تری شنگ چلیں گے۔ میں نے کہا یار اگر استور میں ہی رہنا تھا تو پھر اس سے بہتر تھا کہ ہم مزید ایک رات راما کے خوبصورت میدانوں میں ہی بسر کرتے۔ اب دو تین گھنٹوں میں ان شاء اللہ رات نو بجے تک تری شنگ پہنچ جائیں گے۔ مگر عباس نہیں مان رہا تھا اور کہتا تھا کہ راستہ بھی خطرناک ہے اوپر سے ہم انجان جگہ پر ہیں۔ اصل بات یہ تھی کہ عباس کے دماغ میں یہ بات گھس چکی تھی کہ ہمارے ڈرائیور ٹھیک طرح گاڑی نہیں چلا سکتے۔ ہم نے کہا کہ مانا وہ تھوڑے کمزور ہیں مگر اب اتنی بھی بری نہیں چلاتے۔ تم کو وہم ہو گیا ہے۔ مگر عباس کسی بھی دلیل کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ عباس سے اتنے سالوں کی دوستی میں میں نے آج تک اسے اس طرح ضد کرتے نہیں دیکھا۔ شاید عباس کو راضی کر ہی لیتے مگر ایک اور انکشاف ہوا کہ عبدالستار کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ یا اللہ خیر کرنا، جیسے سب کچھ ہو رہا ہے، اگر اس طرح ہوا تو پورے ٹور کی ”واٹ“ لگ جائے گی۔ بہرحال اب استور میں رکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہوٹل میں دو کمرے لئے اور دس منٹ میں خراب طبیعتیں ٹھیک ہو گئیں۔
ہمت ہارے ہوئے سیاحوں کو بس توانائی بحال کرنے کی فکر تھی۔ کوئی دکانوں پر ”انرجی ڈرنک“ ڈھونڈ رہا تھا تو کوئی اپنے حکیم کو فون کر کے مشورہ کر رہا تھا کہ کیا تھوڑی سی ”سلاجیت“ کھا لوں۔ 🙂 حد ہے یار۔ یہ ہیں پاکستان کے جوان۔ آخر کار میں نے مشورہ دیا کہ جوان بندے ہو، ان فضول چیزوں کو چھوڑو اور اگر زیادہ ہی توانائی کی فکر ہے تو پھر رات کو کھانے میں صرف فروٹ کھاؤ اور آرام کرو۔ صبح تک سب کے سب گھوڑے بن جاؤ گے۔ شکر ہے اب کی بار انہوں نے میرے مشورے پر عمل کر لیا اور میر جمال فروٹ لے آیا۔ ویسے جمال، کمال ہے۔ جب ہم کشمیر میں بنجوسہ جھیل اور پیر تولی گئے تھے تو تب بھی اس نے ہی میرے مشورے پر عمل کرتے ہوئے انار خریدے تھے۔ جب پیر تولی پہنچے تھے تو پھر سب کہتے تھے واہ جی واہ یہ اناروں والا کام بڑا زبردست کیا ہے۔ خیر اب کی بار بھی میر جمال ہی بازار سے فروٹ لایا اور ساتھ میں کچھ خشک انجیر بھی لے آیا۔ کیونکہ مشورہ میرا تھا تو پھر میں سب کو فروٹ کاٹ کاٹ کر دینے لگا، ساتھ ساتھ ان کی باتیں مجھے بہت غصہ چڑھا رہی تھیں کیونکہ ایک بولتا کہ یار یہ بیس کیمپ کو چھوڑو، تو دوسرا بولتا ٹریکنگ کے بغیر ہی جو دیکھنا ہے وہ دیکھو اور واپس چلیں۔ یہ تو بھلا ہو ”تیس مار خاں سیاحوں“ کا جو جلد ہی چپ ہو گئے، ورنہ میں کہنے ہی لگا تھا کہ جس کو جانا ہے وہ صبح کی بجائے ابھی گاڑی پکڑے اور واپس چلا جائے، میں تو لاتوبو بیس کیمپ سے ہو کر ہی واپس آؤں گا۔ خیر سب کھا پی کر سونے لگے مگر میں نے چائے منگوائی بلکہ دو کپ چڑھائے اور لیٹ گیا۔ وہ کیا ہے کہ چائے سے لوگوں کی نیند اڑتی ہے مگر مجھے چائے سے اچھی نیند آتی ہے۔ موبائل اپنے سرہانے ہی چارجنگ پر لگایا۔ ویسے مجھے موبائل کے نیٹ ورک کی بجائے اس کھلونے کے جی پی ایس اور کیمرے کی زیادہ ضرورت تھی۔ خیر موبائل چارجنگ پر لگایا، اِدھر لیٹا اور اُدھر نیند آ گئی۔
جاری ہے۔۔۔
بہت خوب بلال بھائی
بہت اچھے طریقے سے سفر نامہ لکھ رہے ہو آپ۔
میرا مشورہ ہے کہ مکمل ہونے کے بعد اس کو کتابی شکل میں لازمی شائع کروانا
سفرنامہ پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ کتابی شکل والا مشورہ واقعی قابل غور ہے۔ باقی دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
واقعی جب یار دوست اپنی سستی، یا بوریت کی وجہ سے ایک بنے بنائے منصوبے میں ردوبدل کرتے ہیں تو بہت غصہ آتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اچھا لکھا ہے۔ مزا آیا پڑھ کر۔
بس جی غصہ تو آتا ہے مگر برداشت کرنا مجبوری ہے، آخر یار دوستوں کی بھی ایک ”برداشت“ ہوتی ہے۔ باقی تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
پیر تؤلی کے انار آپ کو یاد ہیں۔ وہاں کے جنات بھول گئے۔ کیا واقعی وہاں پر سایہ تھا؟ سفر نامہ بہت زبردست جا رہا ہے جب کتابی شکل میں آئے گا تو اپنی لائبریری کا حصہ ضرور بناؤں گا۔
انار ایک اچھی یاد ہیں اور جنات بہت خوفناک یاد ”تھی“، اس لئے اچھی یادوں کو شوکیس میں سجا کر جینے کا سہارا بنا لیا اور بری یادیں وہیں وادیوں کی گم نام گہری کھائیوں میں پھینک آئے۔ باقی واقعی وہاں سایہ موجود تھا، اتنے درخت جو تھے ان کا سایہ تو ہونا ہی تھا۔ 😆
السلام علیکم
میں نے حال ہی میں آپ کا یہ سفر نامہ پورا پڑھا ہے۔متعدد باتیں اس سفرنامے کو خاص بنا رہی ہیں۔ آپ کا شگفتہ انداز بیان اور کسی تصنع کے بغیر ماحول، حالات سفر کی صحیح عکاسی، پھر خوبصورت تصاویر۔ غرض کہ ایک قسط کے بعد دوسری کا انتظار رہتا ہے۔(لیکن آپ اس سلسلے میں کافی تاخیر کر دیتے ہیں)۔ صرف ایک چیز کا اضافہ اور کر دیجئے تو یہ سفرنامہ مکمل سفری گائیڈ بن سکتا ہے اور وہ یہ کہ تمام اخراجات کی بھی اگر آپ تفاصیل مہیا کر سکیں تو خوب ہو گا، ساتھ ہی ہوٹل یا جیپ یا کسی بھی ٹرانسپورٹ کا کرایہ یا راستے میں جو سامان آپ نے خریدا ہو اس کی تفصل وغیرہ وغیرہ۔
اِس ویب سائٹ پر تو اردو ایسے لِکھی جا رہی ہے جیسے اِن پیج میں لِکھی جاتی ہے بلکہ اُس سے بھی ذیادہ آسانی سے لِکھا جا رہا ہے۔ یہ بہُت اچھا کام کیا ہے آپ لوگوں نے ۔ میں نے آج ہی اِس سوفٹ ویئر کو ڈاون لوڈ کیا ہے اور اِس کی مدد سے یہ کُچھ لائنز کم وقت میں اچھی طرح لِکھ لی ہیں۔جزاک اللہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اِس کا اجر دے۔ اور اُردو زبان کی مزید خدمت کرنے کا موقع دے۔ آمین۔ (موضوع سے ہٹ کر لِکھنے پر معذرت چاہتا ہوں۔)
آپ کا سفر نامہ پڑھ کے بہت لطف آ رہا ہے۔۔۔ خود کو آپ کے ساتھ محسوس کر رہا ہوں
ہممممم دلچسپ
السلام علیکم
بلال صاحب۔
اس سفر نامے کی اگلی تحریر کب لکھنی ہے میں ہر روز آتا ہوں کہ ہو سکتا ہے آج اگلی قسط پڑھنے کو ملے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشا اللہ جی بہت خوب اچھا لکھا آپ نے سفر نامہ بھت ہی اچھا لگا ویسے اگلی تحریر کا انتظار رہے گا
ویسے اس تحریر کے شروعات میں آپ نے جب حسن ابدال کا زکر کیا تو میری توجہ اور بھی مرکوز ہوگی آپ کے سفر نامے پے وہ جی حسن ابدال سے قراقرم ہاے وے پر سترہ کلومیٹر کی مصافت پر اک سٹاپ ہے جس کا نام جھاری کس اور یہ ہی سٹاب پنجاب اور ہزارہ کی بونڈری ہے اور میں بھی اسے علاقے سے تعلق رکھتا ہوں جب میرے علاقے زکر ہوا تو میں نے بھی خوشی سے ایک دو لاہں لکھ دیں