اطلاع ملی کہ بلاگستان میں ایک پرانی روایت کو زندہ کیا گیا اور کئی لوگ ”ٹیگ و ٹیگ“ ہو رہے ہیں۔ شعیب صفدر گھمن صاحب نے ”پہلا روزہ“ عنوان کا ٹیگ شروع کیا اور وہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے ہوتا ہوا ڈاکٹر محمد اسلم فہیم صاحب کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ اب ڈاکٹر صاحب کا حکم تھا تو ظاہر ہے کہ تحریر لکھنی ہی پڑنی تھی۔ ویسے اصل موضوع تو اپنے پہلے روزے سے متعلق ہے، لیکن کیا کروں، مجھے یہ یاد ہی نہیں کہ زندگی کا پہلا روزہ کب رکھا۔ جب یاد ہی نہیں تو پھر بھلا کیا لکھوں؟ البتہ بچپن کے رمضان المبارک کے متعلق کچھ نہ کچھ لکھ دیتا ہوں۔
ہاں تو دوستو! بھلے زمانے کی بات ہے کہ جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے اور تب میڈیا پر ”رمضانی ٹرانسمشن“ نہیں ہوتی تھی۔ روزہ کشائی کی بجائے افطاری ہوا کرتی تھی۔ ویسے اس سب سے یہ نہ سوچیئے گا کہ ہم بہت پرانے یعنی ”انیس سو پتھر“ کے زمانے کے ہیں یا قائم علی شاہ صاحب ہمارے ہم جماعت تھے۔ 😀 ہمارا بچپن گزرے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہ سہی لیکن زیادہ سے زیادہ ہفتہ ہفتہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں۔ ویسے پچھلے دس پندرہ سال میں اور کچھ تبدیل ہوا ہے یا نہیں، لیکن رمضان شروع کرنے یا ہونے پر کئی ”چن چڑھائے“ ضرور جاتے ہیں۔ بلکہ ہر کوئی اپنا اپنا چن چڑھا کر ہی رہتا ہے۔ میں بھی سوچ رہا ہوں کہ ایک چن چڑھاؤں، یعنی جب تک رمضان گرمیوں میں آئے گا تب تک روزوں کا آغاز مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ساتھ کیا کروں اور عید پوپلزئی صاحب کے ساتھ۔ ویسے بھی دونوں نے متفق تو ہونا نہیں، ہم ہی دونوں کا ساتھ دے دیتے ہیں۔ یوں دونوں خوش ہو جائیں گے اور ہمیں ایک روزے کی چھوٹ مل جائے گی۔ 😛
وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی آب و ہوا تبدیل ہو جاتی۔ ایک عجیب سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ خوشی کی نامعلوم سی لہر ہر ایک میں دوڑتی۔ سکون کی فضا چھا جاتی۔ شیطان قید ہو جاتا اور اس کے چیلے منہ چھپاتے پھرتے۔ ویسے بھی تب ان کی تعداد آج سے کافی کم تھی۔ اوپر سے چیلے آج جیسے نہیں تھے بلکہ ان میں کچھ شرم و حیا بھی ہوتی تھی۔ بے غیرتی کے کچھ اصول وہ بھی رکھتے تھے۔ اکثر چیلے کہتے: ٹھیک ہے کہ روزہ نہیں رکھا لیکن احترامِ رمضان بھی کوئی چیز ہے۔ چیلے اپنی برائی تسلیم کرتے، چوری اوپر سے سینہ زوری جیسا معاملہ نہایت ہی کم دیکھنے کو ملتا۔ لوگ دن میں معمول کے مطابق کام کاج کرتے، مگر گناہ سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرتے۔ کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے، ایسے فقرے کہنے کی ضرورت کم ہی پڑتی تھی بلکہ جس کو یہ کہا جاتا کہ رمضان میں تو کچھ شرم کرو، وہ بیچارا تو شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ جبکہ اب تو چیلے کہتے ہیں کہ
کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے
ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کیا ہوتی ہے
ہمارے بچپن میں رمضان سردیوں میں آیا کرتا تھا۔ اس لئے آج جیسی پیاس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اوپر سے روزے کا دورانیہ اتنا تھوڑا ہوتا کہ بھوک بھی محسوس نہ ہوتی۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ چھٹی والے دن ہم روزہ رکھ کر کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ تب اصل مزہ تو تراویح میں آیا کرتا تھا۔ ہم چادر اوڑھ کر تراویح پڑھنے جایا کرتے۔ چادر کے بڑے فائدے ہوتے ہیں۔ چاہو تو اوڑھ لو، چاہو تو بچھا لو۔ اور تو اور بوقتِ ضرورت ”کولڑہ“ بنا کر کسی کو پھینٹی لگا لو یا پھر روپوش ہونے میں کافی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ 🙂 خیر بڑوں کے لئے جو عبادت تھی، ہمارے لئے وہ تفریح ہوتی۔ نمازِ تراویح میں روزانہ ایک ڈیڑھ سپارہ پڑھا جاتا۔ ہم کھڑے رہ رہ کر تھک جاتے۔ چند رکعتوں کے بعد بہانے ڈھونڈتے۔ کبھی چادر درست کرنے میں ہی کئی کئی منٹ لگا دیتے، کبھی اِدھر اُدھر ہو جاتے، کبھی مسجد کے صحن میں چلے جاتے اور جب کوئی بس نہ چلتا تو سخت سردی کے باوجود بھی بلاوجہ وضو کرنے چل پڑتے۔ جیسے ہی رکوع کا وقت قریب آتا تو فوراً نماز میں شامل ہو جاتے۔ دوسری طرف حافظ صاحب بھی ہمارے ہی استاد تھے۔ جب انہیں معلوم ہو جاتا کہ ہم باہر گئے ہوئے ہیں تو جلدی اور چپکے سے رکوع کر دیتے۔ یوں ہمیں خبر نہ ہوتی اور ایک رکعت رہ جاتی۔ ویسے سلام کے بعد اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ جو بزرگ ساتھ کھڑے ہوتے، وہ پوچھتے کہ تم کہاں گئے تھے؟ بندہ پوچھے ”تسی اپنی نبیڑو“۔ خیر ایسی صورتحال کے لئے بہانے پہلے ہی تیار ہوتے تھے۔ کئی بزرگ بہت تنگ کرتے۔ تھانیدار سے بھی زیادہ تفتیش کرتے۔ حاجی صاحب تو اکثر بچوں سے نالاں رہتے۔ ایک دن ایک بچے کو تھپڑ بھی لگا دیا۔ بچہ روتا ہوا مسجد سے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب وقتِ سجدہ آیا تو ”ٹااااس“ کی آواز آئی اور حاجی صاحب کی گالی پوری مسجد میں گونجی۔ پھر کیا تھا کہ حاجی صاحب اپنی تشریف سہلاتے ہوئے مزید ”گردانیں“ پڑھ رہے تھے اور پاس ہی ایک بڑا سا جوتا زمین پر پڑا تھا۔ ویسے آج تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ اس واقعہ کا سرغنہ وہی تھپڑ کھانے والا بچہ تھا یا کوئی اور۔۔۔
بچپن کا رمضان بھی کیا خوب ہوتا تھا۔ ٹیکنالوجی کی بھرمار نہیں تھی۔ ای کارڈز اور ”فارورڈ ایس ایم ایس“ کے ذریعے عید کی مبارکباد دینے کا ابھی رواج نہیں تھا۔ ہم روزانہ اپنے جیب خرچ سے عید کارڈ خریدتے اور پھر اس پر عجیب وغریب شعر اور باتیں لکھ کر دوستوں کو دیتے۔ جس دوست کو تنگ کرنا ہوتا تو اسے کوئی مزاحیہ سا مثلاً بندر یا گدھے والا کارڈ دیا جاتا۔ استادوں کو عموماً اسلامی کیلی گرافی یا حرمین شریفین کی تصویر والا کارڈ دیتے اور اس پر شعر لکھتے ہوئے احترام کا خاص خیال رکھتے۔ چچا، ماموں اور کئی رشتہ دار بیرونِ ممالک سے کارڈ بھیجا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم انہیں بھیجتے۔ پتہ نہیں کیا ہے مگر الیکٹرونک کارڈ یا مبارکباد میں وہ مزہ نہیں جو تب کے ”پرنٹڈ کارڈز“ میں ہوا کرتا تھا یا شاید ہم بڑے ہو چکے ہیں۔
تب رمضان میں ہی عید کی ساری تیاریاں کر لی جاتیں اور چاند رات کو ”آنکھیں ٹھنڈی“ کرنے جیسی بے غیرتی کا ذرا بھی رواج نہیں تھا، یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ہم کم عمر تھے اور شیطان سے بھی کوئی خاص ”علیک سلیک“ نہیں تھی۔ 😛 اس لئے ہمیں ایسی باتوں کا ٹھیک طرح علم نہ ہو سکا ہو۔ بہرحال اِدھر رمضان شروع ہوتا تھا تو اُدھر عید کی تیاریاں بھی شروع ہو جاتیں۔ لوگ روزے کے باوجود بھی ہشاش بشاش ہوتے تھے نہ کہ آج کی طرح اِدھر روزہ رکھ لیا اور اُدھر دماغ میں خون کی گردش تیز ہو گئی۔ ذرا سی بات پر لڑتے پھرتے ہیں۔ جیسے روزہ رکھ کر بڑا احسان کر رہے ہیں۔
چاند رات سے پہلے پہلے لڑکیاں اچھی سے اچھی مہندی کا انتظام کر رکھتیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی مہندی لگاتیں اور ساری رات اسے سوکھاتیں۔ دوسرے دن ایک دوسرے کو دیکھاتی پھرتیں کہ دیکھو میری مہندی کا رنگ گاڑھا ہے۔ دوسری طرف ہم لڑکوں کے اپنے ہی ”فنکشن“ ہوتے۔ آخری روزے اپنی اپنی سائیکلوں کو لش پش کرتے اور پھر ”شام و شام“ گھوڑے بیچ کر سو جاتے۔ صبح عید کی نماز پڑھتے، جس کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہوتا کہ اپنے بیگانے، امیر غریب یا کسی بھی قسم کے فرق کو خاطر میں نہ لایا جاتا اور ہر کوئی ایک دوسرے کو گلے لگا کر عید مبارک کہتا۔ ”عیدیاں“ وصول ہوتیں اور پھر موجیں ہی موجیں۔
پیشگی عید مبارک۔۔۔
“چاند رات کو ”آنکھیں ٹھنڈی“ کرنے جیسی بے غیرتی کا ذرا بھی رواج نہیں تھا، یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ہم کم عمر تھے اور شیطان سے بھی کوئی خاص ”علیک سلیک“ نہیں تھی 😎 ”
سرکار اک پوسٹ چاند رات پر بھی ہو جائے؟؟
رمضان پلس عید بلاگ ۔۔۔۔۔اس کو کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار کرنا۔ میں بھی کہوں کہ “ایم بلاگ ایم” کیوں اتنا ہچکچا رہے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح خوبصورت مزاح اور دل کو لگتی تحریر۔۔۔غیر محسوس انداز میں معاشرے کے منافقانہ رویوں کی نشاندہی کی ۔
لکھتے رہیں لیکن جلدی بلاگ پر پوسٹ بھی کرتے رہا کریں
بہت عمدہ ـ واقعی اس وقت رمضان کا بہت احترام کیا جاتا تھا ہم.جب سکول جاتے تھے تو سکول کی کینٹین بھی بند کر دی جاتی تھی اور اب حالت یہ ھے بازاروں میں کھلے عام لوگ کھاتے پھرتے ہیں. اور جس طرح آپ نے ہلکے پھلکے انداز میں معاشرتی رویوں کی نشاندہی کی بہت اعلٰی.
جن دنوں کا زکر اوپر ہوا ہے کچھ اُس سے اور پہلے ہمارے روزے اور مسجد میں نماز فرق سے تھی۔ خصو صا” جمعہ کی نماز جس میں ہمارے سب ہی بڑے حاضر ہوتے تھے،میرے ابو،نانا،ماموں،خالو چچا اور دیگر بزرگ بھی۔میں اور میرا ایک کزن جمعہ کے لیئے سب سے پہلے سب سے آگے جا کر بیٹھ جاتے تھے۔ اور جیسے جیسے بزرگ آتے جاتے ہم اُنکو مل کر پیچھے کی لائن میں ہوتے جاتے،
یہاں تک کہ ہم آخری لائن میں ہو جاتے۔۔۔۔ اور چونکہ ہم نے جمعہ کے دن لگنے والی فلم کا پہلے دن کا پہلا شو دیکھنا ہوتا تھا اسلئے ہم سلام پھرتے ہی ہم مسجد سے نکل کر ٹانگہ لیکر فلم کا شو دیکھنے چلے جاتے۔۔۔ اور جب ہم پکڑے جاتے اور ہماری شکائت ہوتی کہ ہم فلم دیکھنے گئے تھے۔۔۔۔ تو ہمارے سب ہی بزرگ کہتے کہ ہم نے تو اُنکو مسجد میں دیکھا تھا۔۔۔۔ تئم کیسے کہتے ہو کہ یہ فلم دیکھنے گئے تھے۔؟
محترم بلال بھائی، اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکات ۔ سب سے پہلے تو پیشگی عید مبارک قبول فرمائین۔۔ اسکے بعد (ہمارے بچپن کے رمضان المبارک) جیسی خوبصورت تحریر لکھنے پر ۔۔ بہت ساری پرانی شرارتیں اور باتیں یاد دلادیں۔۔ بہر حال وہ بھی ایک خوبصورت دور ہوتا ہے۔ جو گزرجاتا ہے۔
عرض یہ کرنا تھا، کہ اب قائم علی شاہ، صاحب، اتنے بھی آثار قدیمہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ کہ آپ انکےہم جماعت ہونے پر شرمندہ ہوں، ویسے ۔ حیرت زدہ میں بھی ہوں، کہ شاہ صاحب کے تمام پرانے ساتھی، فناء فلا ء ہوگئے۔ قائم علی شاہ صاحب، ابتک باقید حیات ہیں، میٹرک انہیں کرنے کی ضرورت نہیں ، کہ سندھ کے سید گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں بعض چیزون کی ضررت نہیں ہوتی۔۔ اسی طرح بغیر تعلیم کے وہ وزیر اعلیٰ سندھ ہیں۔ آپ نے اپنے آپ کو ان کے ساتھ ملا کر مجھے شرمندہ کردیا ہے۔۔۔ خیر دوستی میں اور محبت میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔۔۔ جیسے ہم وزیر اعلیٰ سندھ ، قائم علی شاہ کو برداست کررہے ہیں۔
بہت شکریہ بلال بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس مان سے میں نے آپ کو ٹیگا اس سے زیادہ خوبصورت انداز میں آپ نے میرے مان کی لاج رکھی
بہت خوب تذکرہ کیا آپ نے بچپن کے روزوں کا اور سونے پہ سہاگہ کہ ساتھ میں عید کی یادوں نے اسے چار چاند لگا دیےگویا یہ میڈیکل کی زبان میں “پاور پلس” بلاگ ہو گیا۔
حاجی صاحب کی “تشریف “پر “ٹاس” کی آواز لگانے والے کو حاجی صاحب تو نہیں جان پائے لیکن میں نے اسے “پہچان “لیا 😛
زبردست تحریر بچپن کی یاد دلا دی آپ نے۔ بس اتنا ہی کہیںگے کہ
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ماشا اللہ “ہمارے بچپن کے رمضان المبارک ” ایک بہت کوبصورت تحریر ہے اسے پڑھ کر مجھے اپنے بچپن کے رمضان کے دن بالکل ویسے ہی دکھائی دینے لگے جنہیں میں نے حقیقت میں دیکھا اور محسوس کیا تھا اور وہ سارا نقشہ جسےآپ نے اپنی اس انتہائی خوبصورت تحریر میں کھنچا ہے میرے سامنے آگیا اور تقاضا کرنے لگا کہ با با جی ” سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں” اس وقت میری عمر 60 سال سے تجاوز کر گئی ہے بس اپنے ان بچپن کے دنوں کو صرف یاد کر کر کے دل کو تسلی دیتا ہوں آپ کی اس طرح کی تحریریں پڑھ کر حوصلہ مل جاتا ہے
اللہ تبارک و تعالی آپ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین
آپکی تحریر پڑھ کے تو مزہ ہی آگیا۔
ماشاءالہ جب بھی لکھتے ہیں، خوب لکھتے ہیں۔
بچپن کی یادوں کی کیا بات ہے جب انسان خالص ہوتا ہے
خوش رہیں
میری والدہ مجھے مہندی لگا کر ہاتھون پر کپرا باندھ دیا کرتی تھین۔
بہت خوب لکھا بھائی آپ نے بڑے اچھے سے پہلےدور اور اب کا موزوانہ کیا ۔ تحریر بڑھی ہی دلچسب ہے ۔ کارڈ کا آپ نے خوب لکھا ۔اس موضوع پر ایک اپنی ادھوری تحریر لکھی تھی وہ یاد آگئی اج بھی پرانے کارڈ اور خطوط ملتے ہیں توخاص سرور چھا جاتاہے ۔۔۔یہ اور آنے والے تمام عیدیں آپ کو بہہہت بہت مبارک ہو ۔نیٹ سے دور تھی اس لئے بر وقت کمنٹ نہ کرسکی سوری
بہت خوب تحریر ہے،،،واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالد محمود،،،،،،کراچی :