گزشتہ سے پیوستہ
یہ اعزاز صرف مجھے ہی بخشا گیا ہے۔ یعنی ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی تک یہ کارنامہ صرف منظرباز نے ہی سرانجام دیا ہے۔ اجی! یہ محل بنانے کا کارنامہ نہیں، بلکہ تاریکیوں میں ڈوبے اس محل کو اُس وقت تصویر میں قید کرنے کا کارنامہ کہ جب یہ اچانک لمحہ بھر کے لئے روشن ہوا، سفید سے سنہری ہوا۔۔۔ گو کہ دل کی آنکھ تو اندھیرے میں بھی اس تاریک محل کو روشن ہی دیکھ رہی تھی۔ مگر جیسا دل نے دیکھا ویسا حقیقی تصویر کے ذریعے اظہار چاہتا تھا… آپ کو دکھانا چاہتا تھا… بس اسی لئے اس قدر جدوجہد ہوئی۔۔۔ جب ایک دوست کو یہ تصویر دکھائی تو اس نے پہلی نظر میں کہا کہ کیا یہ بہاولپور کا نور محل ہے؟ نہیں جناب، درحقیقت یہ ڈیرہ نواب صاحب میں اُجڑ چکا صادق گڑھ محل ہے۔ دراصل کسی کے وہم میں بھی نہیں آ سکتا کہ یوں روشن اس محل کی تصویر بھی ہو سکتی ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر تلاش کریں تو صادق گڑھ پیلس کی بڑی تصویریں ملیں گی، مگر اس انوکھی تصویر جیسی شاید نہ ملے۔۔۔ اور کیا آپ یہ تصویر بنانے کی مزیدار خجل خواری اور بہت سارے پاپڑ بیلنے کی کہانی سننا چاہیں گے؟
ہوا کچھ یوں کہ جب ہم کوٹ مٹھن سے نکلے تو دیر ہو چکی تھی۔ میں افسردہ سا تھا کہ شام کو پہنچے تو اندھیرے میں محل بھلا کیا دیکھیں گے۔ اس تاخیر پر فرید نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میرے کان میں سرگوشی کی کہ ”بے فکر ہو جا۔ تاخیر ہوئی نہیں بلکہ اُس نے کرائی ہے۔ وہ ماحول بنا رہا ہے“۔۔۔
بیرونی فصیل والے صدر دروازے پر گاڑی کھڑی ہوئی اور یہاں سے تقریباً تین سو میٹر دور محل کی مرکزی عمارت تھی اور وہاں تک پیدل جانا تھا۔ غروب آفتاب ہو رہا تھا اور وقت بہت تھوڑا تھا تو میں نے محل کی سمت دوڑ ہی لگا دی۔ مناسب فاصلے پر پہنچ کر ایک دو تصویریں بنائیں اور پھر جلدی جلدی پرندو نے اڑان بھری۔ چند تصویریں اور ویڈیوز بنا کر وہ بھی واپس میرے ہاتھ پر آ بیٹھا۔ اور جب میں محل کے اندر پہنچا تو تب تک باقی دوست کئی اہم مقامات دیکھ چکے تھے۔ محل اندر سے تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ بس ایک آدھ معمولی بلب لگا کر کسی نے اپنے تئیں اندھیروں کو مات دینے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مرکزی ہال میں دو چار تصویریں بنائیں اور ان تصویروں میں میرے لئے اک سرپرائز بھی تھا۔ اتنے میں جو اتری تھی شام، وہ ڈھلنے لگی رات میں۔ اور اس اندھیرے میں اول تو محل اور اس کے تہہ خانے دیکھنے مشکل تھے، دوسرا یہ کہ چوکیدار نے بھی محل کو تالا لگا کر گھر جانا تھا۔ ہائے! اس جملے پر تو نواب آف بہاولپور کی روح تڑپ گئی ہو گی۔۔۔ وہ محل کہ جسے نواب صادق محمد خان چہارم نے 1882ء تا 1895ء میں پندرہ لاکھ روپے کی لاگت سے اور بڑے چاؤ سے بنوایا تھا۔ وہ صادق گڑھ محل جو کبھی وائیٹ پیلس بھی کہلاتا تھا۔ وہ جہاں وائسرائے سے لے کر پاکستانی حکمرانوں تک نے حاضری دی۔ وہ جس کی غلام گردشوں میں نوکر چاکر دوڑ دوڑ کر حکم بجا لاتے ہوں گے۔ وہ جو کبھی روشنیوں سے بقائے نور ہوتا ہو گا۔ مگر وقت کی مار دیکھیں کہ آج وہ ایسے تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے کہ چوکیدار اسے تالا لگا کر گھر جاتا ہے۔۔۔
بہرحال محل سے نکل کر سب گاڑی کی طرف چل دیئے۔ مگر فرید نے مجھے کہا کہ تم ٹھہر جاؤ۔ لہٰذا میں رُک گیا اور باقیوں کو بولا کہ آپ لوگ جا کر گاڑی میں بیٹھیں، میں بس آیا۔ جب سب چلے گئے تو وہاں غضب کا ویرانہ ہو گیا۔ اور پھر وہاں میں تھا، فرید تھا اور ”تم“ تھے۔ ویسے ہم تو تھے ہی نہیں، درحقیقت وہاں بھی صرف تم ہی تو تھے۔
اب محل سے تقریباً سو میٹر دور ٹرائی پاڈ پر کیمرہ لگائے اندھیرے میں یوں کھڑا تھا کہ میرے سامنے محل کی مرکزی مگر تاریک عمارت تھی اور میرے پیچھے دو سو میٹر دور بیرونی دروازہ تھا۔ جہاں ہماری گاڑی کھڑی تھی، سب اس میں بیٹھ چکے تھے اور اب انہیں صرف میرا انتظار تھا۔ مگر میں تو کسی اور ہی معاملے میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہاں ہر لمحے اک نیا کردار، اک نئی کہانی جنم لے رہی تھی۔ اگر آپ لکھاری، فنکار یا کسی بھی قسم کے تخلیق کار ہیں، تو میرا مشورہ ہے کہ جیسے تیسے اس محل میں تنہا گھومیں، اک شام وہاں گزاریں، اک عجب تجربے اور انوکھی کیفیات سے دوچار ہوں گے۔۔۔
شفق ماند پڑ چکی تھی اور چوتھی کے چاند کی روشنی کم ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا کیمرے کی آنکھ اپنی مکمل پتلی(اپرچر) کھول کر اور ایک جگہ ساکت رہ کر زیادہ دیر (لانگ شٹر سے) محل کو گھورتی تو کام بنتا۔ بس پھر سیٹنگز کیں اور شٹر دبا دیا۔ اور کام بن گیا۔۔۔ لیکن ٹھہریئے! جو کام مجھے چاہیئے تھا، اس کے لئے ابھی بڑے پاپڑ بیلنے تھے۔ کیونکہ مجھے محل تھوڑا مختلف انداز سے روشن چاہیئے تھا۔ اس دوران فرید پتہ نہیں کہاں چلا گیا اور دور سے چوکیدار کی ہلکی سی آواز آئی کہ آ جا بھئی آ جا۔ میں نے تالا لگانا ہے۔ ”آیا بس دو منٹ میں آیا“۔۔۔ خیر اب کی بار تھوڑا زیادہ ”لانگ ایکسپوژر“ لگایا اور کیمرے کو ادھر ہی چھوڑ کر خود عمارت کی طرف چل دیا۔ قریب جا کر موبائل کی ٹارچ سے محل پر روشنی پھینکنے لگا۔ دل میں خدشہ بھی تھا کہ پیچھے سے کوئی کیمرہ ہی اٹھا کر نہ لے جائے۔ یا پھر کوئی جانور کہیں سے آ گیا تو کیمرے کو گرا نہ دے۔ اور اگر نواب صاحب کی روح آ گئی تو یقیناً لِتر مارے گی کہ کون اس وقت محل میں اچھل کود کر کے ان کی تنہائیوں میں خلل ڈال رہا ہے۔ لہٰذا میں جلد ہی واپس کیمرے کے پاس پہنچ گیا۔۔۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنا بڑا محل کیسے روشن کیا جائے؟ تو اتنے میں فرید بھی آ گیا۔ اسے کہا کہ یار فرید! محل کو روشن کرنے کا کوئی بندوبست کر۔ ”ٹھہر جا، ٹھہر جا۔ فکر نہ کر، اُس نے سارے بندوبست کر رکھے ہیں“۔۔۔
دور بیرونی دروازے پر چوکیدار شدت سے میرا انتظار کر رہا تھا۔ ایسے میں بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ مزید کسی وزیٹر کو محل کی مرکزی عمارت کی طرف جانے کی اجازت دیتا۔ مگر ایسا ہوا اور ایک سوار کسی خاتون کو موٹرسائیکل پر بیٹھائے میری طرف آیا۔ میں نے انہیں روکا، مدد کا کہا کہ مجھے موٹرسائیکل کی روشنی درکار ہے اور پھر اپنا مدعا سمجھایا کہ آپ محل کے قریب والی راہداری پر موٹرسائیکل لے جائیں۔ جب میں آواز دوں گا تو وہاں سے چل کر دائیں طرف جائیں اور فلاں فلاں مقام پر روشنی پھینکیں۔ اس بھلے انسان نے ایسا ہی کیا۔ یوں کام بن گیا۔۔۔ مگر ایک مرتبہ پھر ٹھہریئے! وہ کیا ہے کہ اس طرح محل کا نچلا حصہ تو روشن ہو گیا مگر اوپر تاریکیاں تھیں۔ جب میں بننے والی تصویر دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ محل کا اوپر والا حصہ کیسے روشن کیا جائے تو تب تک وہ سوار واپس میرے پاس پہنچ چکا تھا۔ میں نے اسے کہا ابھی جائیے گا نہیں۔ کیونکہ تصویر ادھوری بنی ہے۔ تبھی آئیڈیا آیا کہ ذیشان رشید صاحب کو کال کر کے کہتا ہوں: چوکیدار گاڑی آگے تو آنے نہیں دے گا، لہٰذا ڈرائیور کو بولیں کہ ہیڈلائیٹس آن کر کے گاڑی موڑنے کے بہانے وہیں سے روشنیوں کا رخ محل کی طرف کرے۔ یوں محل کا اوپر والا حصہ روشن ہو جائے گا اور اسی وقت موٹرسائیکل والے کو دوبارہ بھیجتا ہوں اور اس سے نچلا حصہ روشن کراتا ہوں۔۔۔ ایک طرف ذیشان صاحب کال پر تھے، دوسری طرف موٹرسائیکل والا محل کے قریب پہنچ گیا۔ دور سے جب مُڑتی گاڑی کی ترچھی روشنی محل پر پڑی تو موٹرسائیکل سوار کو آواز دی کہ حرکت کرو اور خود شٹر مار دیا۔ وہ کچھ سیکنڈز کا نظارہ ایسا شدید تھا کہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔ شاید تصویر کچھ بیان کر پائی ہو۔ اور جب کیمرے نے بننے والی تصویر سکرین پر دکھائی تو میں نے بے اختیار رقص کیا۔ میں اپنے مدار میں گھوما اور جھوم جھوم کر گھوما۔ مجھے اک تحفہ مل چکا تھا۔۔۔ منظرباز اس شام منظر کے ساتھ خوب کھیلا… اور پھر صحرا کی اور چل دیا۔۔۔
اگلا حصہ : صحرائے چولستان میں قلعہ دراوڑ اور سٹار ٹریل
عالی جنبوا، شامی کببوا !
76 سال کے سفر میں پہلی بار آپ کی بیاضِ کبیر میں ” خَجِل خُواری” کا دیدار ہوا۔
جناب، خجالت کافی و شافی ہے۔