ایک دفعہ پھر حسینہ سے ملاقات ہو گئی۔ بلکہ اب کی بار اس کے ذاتی کمرے میں رات گزارنے اور اسے چھونے کا موقع بھی ملا۔ لیکن ہم نے ”شرعی حدود“ کا مکمل خیال رکھا۔ یوں تو رات بھر حسینہ سے باتیں ہوتی رہیں مگر درمیان میں پردہ بھی برقرار تھا۔ وہ ایک یادگار اور لاجواب رات تھی۔ حسینہ کے ماضی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب یہ بہت چھوٹی تھی تو ایک دفعہ اپنے بھائی اور ماں کے ساتھ دریا عبور کر رہی تھی۔ دونوں بہن بھائی لہروں کی تاب نہ لا سکے اور پانی میں بہہ گئے۔ یوں بچے ماں سے بچھڑ گئے۔ پھر جیسے تیسے کر کے کنارے لگے مگر بے یارومددگار اور بھائی کچھ زخمی بھی ہو چکا تھا۔ اور پھر ان پر محکمہ تحفظِ جنگلی حیات کی نظر پڑ گئی۔ جی ہاں! حسینہ بولے تو لولی(Lovely) وہی برفانی چیتا بلکہ چیتی ہے کہ جو ماں سے بچھڑ گئی۔ پہلے یہ سوست شہر کے قریب اور اب وادی نلتر میں قید ہے۔ سوست میں تو کافی چھوٹا پنجرہ تھا مگر نلتر میں تھوڑی کھلی جگہ پر جالی لگا کر کچھ بہتر ماحول بنا دیا گیا۔ بہرحال حسینہ کے زخمی بھائی کو علاج کے لئے امریکہ لے گئے اور پھر وہ کبھی واپس نہیں آیا۔ غالباً اسے گرین کارڈ مل گیا تھا اور بدلے میں ہماری حکومت کو چند ڈالر شالر۔۔۔ جب حسینہ سوست میں تھی، تب یہ سب ہمیں وائلڈلائف والوں نے بتایا تھا۔ اس کہانی میں کتنی صداقت ہے، یہ تو نہیں معلوم لیکن آج کا سچ یہی ہے کہ حسینہ قید میں ہے اور اب قید غالباً مجبوری ٹھہری۔ کیونکہ جب اس کی عمر شکار کھیلنا سیکھنے کی تھی، تب یہ ماں سے بچھڑ گئی اور نہ سیکھ پائی۔ اب اگر اسے آزاد کر بھی دیا جائے تو شاید شکار نہیں کر پائے گی اور بھوکی مر جائے گی۔۔۔
وادئ نلتر میں حسینہ زیادہ تر کھلے آسمان تلے مگر جالی کے حصار(پنجرے) میں ہی رہتی ہے، جبکہ اس پنجرے سے ملحقہ جس کمرے میں ہم نے رات گزاری تھی، اس میں وہ بس کبھی کبھار ”سولا سنگھار“ کرنے آتی بلکہ لائی جاتی ہے۔ اس کمرے کی ایک روشن دان نما کھڑکی پنجرے میں کھلتی ہے۔ یوں تو گھوم پھر کر خوب فوٹوگرافی کی، لیکن جب میں اس کھڑکی سے حسینہ کی فوٹوگرافی کر رہا تھا تو مجھے کے ٹو(K2) پہاڑ کی مہم جوئی سے متعلق امریکن فلم ورٹیکل لِمٹ (Vertical Limit) کا وہ منظر یاد آ گیا کہ جب فلم کا ایک کردار ”پیٹر گیرٹ“ جوکہ کوہ پیما اور فوٹوگرافر ہوتا ہے، اور ہمالیہ کے دوردراز برف پوش پہاڑوں میں ایسے ہی ایک کمرے کی کھڑکی سے برفانی چیتوں کی فوٹوگرافی کر رہا ہوتا ہے۔
لیں جناب! لگے ہاتھوں تھوڑی منشی گیری بھی ہو جائے۔ لہٰذا ”دو جمع دو“ کہتا ہے کہ برفانی چیتا (Snow Leopard) بڑی بلی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ تقریباً نایاب جانور ہے اور عالمی اتحاد برائے تحفظِ قدرت (IUCN) اسے خطرے سے دوچار اور معدوم ہوتے جانوروں کی فہرست میں شمار کرتا ہے۔ برفانی چیتا وسطی اور جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ شمالی علاقہ جات کے سخت اور مشکل ترین برف پوش پہاڑوں میں مٹرگشت کرتا ہے۔ برفانی چیتا عموماً 2700 سے 5500میٹر کی بلندی پر رہتا ہے۔ اس گوشت خور جانور کو ”گرے گھوسٹ“ یعنی بھورا بھوت بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ شینا زبان میں ”دیں“ اور بلتی میں ”خچن“ کہتے ہیں۔ بعض علاقوں میں اسے ”پُردُم“ بھی کہا جاتا ہے۔
بہرحال جب میں اور عباس مرزا حسینہ سے ملنے نلتر پہنچے تو شام ہونے والی تھی۔ بمبوکاٹ سے سامان اتارا اور حسینہ کے ڈریسنگ روم میں منتقل کیا۔ ”ٹِن پیک“ کھانا گرم کیا اور کھانے لگے۔ اس دوران ایک دفعہ حسینہ نے کھڑکی پر دستک بھی دی اور بولی ”سوہنیو! کھانے ہی کھاتے رہو گے یا میرے پاس بھی آؤ گے“۔ ہم نے کہا ”اے دلربا! اتنا کشٹ ہی تمہارے لئے کیا ہے۔ ذرا ٹھہر تو سہی۔ سانس تو لینے دے“۔ خیر کھانے کے بعد کچھ آرام کیا اور پھر حسینہ کی طرف چل دیئے، مگر مکمل سولا سنگھار کر کے۔ کیونکہ مئی میں رات کو نلتر میں شدید ٹھنڈ ہوتی ہے۔ عباس مرزا نے ٹارچ سنبھالی، میں نے کیمرہ اور اندھیرے میں حسینہ کا فوٹوشوٹ کرنے چل پڑے۔
دراصل ہم ایسی تصویر چاہتے تھے کہ جس میں روشنی کی وجہ سے حسینہ کی آنکھوں میں چمک ہو۔ خیر ہمارے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ جب ہم پنجرے(جالی) کے قریب مگر ایک ڈھلوان پر ہی تھے تو حسینہ نے ہم پر زوردار حملہ کر دیا۔ حسینہ کی زبردست دھاڑ اور ساتھ میں اس کے جالی سے ٹکرانے کی تیز کھرکھراہٹ سے ہم ایسے ڈرے کہ لڑکھتے لڑکھتے بچے۔ جب حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ حسینہ پنجرے کی دوسری طرف جا چکی ہے۔ ہمیں روشن آنکھوں کی تصویر بنانے کے لئے پنجرے کے گرد لمبا چکر کاٹ کر دوسری طرف حسینہ کے پاس جانا تھا۔ ایک تو اونچی نیچی راہ اور اوپر سے گھپ اندھیرہ۔ میں نے عباس مرزا کو کہا کہ آپ دوسری طرف جاؤ اور حسینہ کا کچھ ترلہ منت کرو کہ اِدھر کیمرے کے سامنے آ جائے۔ عباس گیا اور کافی منت سماجت کی مگر وہ حسینہ ہی کیا کہ جو بات مان جائے۔ آخر ہم نے اِدھر سے اُدھر کئی چکر کاٹے۔ حسینہ نے ایک دو دفعہ شغل شغل میں کیمرے کے سامنے ”کیٹ واک“ بھی کی لیکن اول تو وہ نہایت مختصر تھی اور دوسرا یہ کہ کم روشنی کی وجہ سے ”فوکس“ ٹھیک نہ ہو سکا اور مطلب کی تصویر نہ بنی۔ سخت سردی میں ہمیں تگنی کا ناچ نچا کر آخرکار حسینہ کو ترس آ ہی گیا۔ یوں جہاں ہم تھکے ہارے کھڑے تھے وہ اُدھر ہی ہمارے پاس آئی اور بولی ”لو بھئی! تصویر بناؤ اور میری جان چھوڑو۔ کب سے تماشہ لگا رکھا ہے“۔ حسینہ کی اس اچانک مہربانی پر مجھے کچھ ”آیا گیا“ ہی نہ اور بے دھیانی میں ڈی ایس ایل آر کیمرے کی بجائے موبائل پر ہی تصویر بنا دی۔ وہ تو بعد میں خود کو کوستا رہا کہ میں نے بڑا زبردست موقع ضائع کر دیا ہے۔ خیر جب تصویر بنا لی تو حسینہ جانے کے لئے مڑی اور جاتے جاتے وہ شہریار کے یہ اشعار گنگنا رہی تھی۔
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
اُدھر کھڑے کھڑے جب سکرین پر تصویر دیکھی تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا کہ واہ! میری ”امراؤجان ادا“۔ تم ٹھیک ہی کہتی ہو۔ بے شک ان آنکھوں کی مستی لاجواب ہے۔ واقعی تمہاری آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں۔ اور ایک وہ افسانہ بھی تو ہے کہ جس میں کچھ لوگ تمہیں پہاڑوں کا فرشتہ کہتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں تمہاری ذات خوش قسمت لوگوں کو ہی نظر آتی ہے۔ ایک دوسرا افسانہ بھی تو ہے کہ اگر تم کسی بندے کے پالتو جانور کھا جاؤ تو وہ بندہ صحت مند رہے گا اور اس کے مال و دولت میں اضافہ ہو گا۔ یہ بھی سچ ہی ہے کہ تمہارے دیوانے ہزاروں ہیں۔ وہ دیوانے جو تمہیں باقاعدگی سے لذیذ گوشت بھیجتے ہیں۔ اور سوست کے گاؤں ناظم آباد کا احمد بھی تو تمہارا دیوانہ ہی ہے کہ جس نے اپنی پانچ برس کی زیادہ تر کمائی تمہاری تلاش میں لگا دی اور تمہارے کسی بہن بھائی کی فقط ویڈیو بنانے کی خاطر رات بھر ٹھنڈ برداشت کی اور پھر اپنی درجن بھر بھیڑوں کو چیرنے پھاڑنے دیا۔ اور تمہارے دیوانے کیا خوب کہتے ہیں ”یہی کمال ہے کہ آپ فطرت میں مداخلت نہ کرتے ہوئے اس کی فوٹو/ویڈیو بناؤ“۔
حسینہ کے دیوانوں میں ایک غلام رسول صاحب بھی ہیں۔ جن سے اگلی صبح ہماری ملاقات ہوئی۔ وہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات(وائلڈلائف) سے ریٹائرڈ ہیں اور اب رضاکارانہ طور پر نلتر میں حسینہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور پیارے سے اسے ”لولی بیٹا“ بلاتے ہیں۔ حسینہ بھی غلام رسول صاحب سے بہت محبت کرتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب وہ حسینہ کو آواز دیتے ہیں تو وہ دوڑی چلی آتی ہے۔ بے شک درمیان میں جالی ہوتی ہے لیکن غلام رسول جالی سے ہاتھ اندر کر کے حسینہ کو پیار کرتے ہیں اور حسینہ ان کے ہاتھ چومتی ہے۔ میرا بھی حسینہ کو چھونے کا دل کیا اور اپنی خواہش غلام رسول صاحب کو بتائی۔ انہوں نے حسینہ کو کہا ”لولی بیٹا! اِدھر آؤ اور کچھ نہ کہنا“۔ یوں میں نے حسینہ کو خوب پیار کیا اور اُس نے واقعی مجھے کچھ نہ کہا۔ ان لمحات کی ویڈیو بھی بنی اور جرمنی کے عالمی خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے (DW) کی طرف سے میری سیاحتی سرگرمیوں پر بنائی گئی رپورٹ میں اس ویڈیوکلپ کو بھی شامل کیا گیا۔ بہرحال غلام رسول صاحب کی خواہش ہے کہ کسی طرح جلد از جلد حسینہ کے ہاتھ پیلے ہوں کیونکہ وہ جوان ہو چکی ہے۔ غلام رسول حسینہ کے لئے کسی ایسے رشتے کی تلاش میں ہیں کہ جو گھر داماد بننے کو تیار ہو۔ ویسے رشتے تو ہیں لیکن جہیز کے لئے پیسا درکار ہے۔ دوسری طرف جہیز کے انتظار میں حسینہ کی عمر نکلے جا رہی ہے اور وہ ہجر کی راتوں میں وصالِ یار کے لئے بہت روتی ہے۔ یقیناً حسینہ کے عاشق بھی تڑپتے ہوں گے لیکن ان آنکھوں کی مستی میں وہی ڈوبے گا کہ جس کی آزادی سلب ہو گی۔
مزہ آ گیا ، بھائ پہلی بار آپکا بلاگ وزٹ کیا ہوں ، بہت اچھا لگا ،
شکریہ