جس طرح ہم حقیقی زندگی میں اپنے جاننے والوں سے ملتے، بحث مباحثے، گپ شپ اور موج مستی وغیرہ کرتے ہیں، بالکل ایسے ہی سوشل میڈیا کی صورت میں زندگی کا ایک نیا حصہ وجود میں آ چکا ہے۔ اب آپ اسے مجازی زندگی کا نام دیں یا کچھ بھی لیکن یہ ہماری حقیقی زندگی کے بہت قریب ہے۔
میں مانتا ہوں کہ جہاں سوشل میڈیا بہتری کے لئے کافی سود مند ہے وہیں پر اس کے کچھ منفی اثرات بھی معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ مگر یہ منفی اثرات اس نوعیت کے نہیں، جس نوعیت کے ہمارے روایتی میڈیا کے لوگ زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ خیر منفی اثرات اور پہلو پر پھر کبھی بات کریں گے۔ میری پچھلی تحریر سے کچھ قارئین کو لگا کہ میں سوشل میڈیا کی اچھائی اور برائی، دونوں کی وکالت کر رہا ہوں۔ جبکہ ایسا نہیں، میں تو صرف سوشل میڈیا سے خائف ان لوگوں کو چند باتیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا جو سوشل میڈیا کے خلاف کالم پر کالم اور مضامین پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ کوئی سوشل میڈیا پر لوگوں کے جھوٹوں پر لکھ رہا ہے تو کوئی گالیوں پر۔
جھوٹ اور گالی میں سوشل میڈیا کا کوئی قصور نہیں۔ اگر قصور ہے تو ہماری تربیت کا۔ کیا آپ نے کبھی حقیقی زندگی میں عام جوانوں کی محافل دیکھیں؟ کیا کبھی نوجوانوں کو آپس میں گپ شپ کرتے سنا؟ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ کتنے فیصد لوگ بس سنی سنائی بات آگے پہنچا دیتے ہیں؟ کتنے فیصد لوگ دوسروں کا گلہ کرتے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں؟ کتنے فیصد لوگ بات بات پر گالی نکالتے ہیں؟ اگر آپ غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت حقیقی زندگی میں بھی جھوٹ اور گالی کے سہارے چل رہی ہے۔ میری بات پر یقین نہ آئے تو پھر اپنی مہذب دنیا سے باہر نکلیں۔ نوجوانوں کی محافل میں ہونے والی بات چیت سنیئے۔ وہ جو مسکرا مسکرا کر لمبی لمبی فون کالز کرتے/کرتی ہیں ان کی فون پر ہونے والی گفتگو سنیئے۔ راہ چلتے کسی لڑکی کا ”سی ٹی سکین“ کرنے والی آنکھوں میں جھانک کر دیکھئے۔ کسی بھیڑ والے چوک میں کھڑے ہوں جائیں ادھر سے گذرنے والوں کی گفتگو سنیئے۔ آپ زیادہ تحقیق نہ کیجئے بس یہاں تک ہی معلومات حاصل کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ پڑھے لکھوں سے لے کر ان پڑھوں تک اور سیانوں سے لے کر جاہلوں تک، ہم اخلاقی لحاظ سے کتنے پانی میں ہیں۔ یہاں ایک بات ذہن میں رکھیں کہ سارا معاشرہ ہی ایسا نہیں بلکہ بات اکثریت کی ہو رہی ہے، جبکہ اچھے لوگ بھی معاشرے میں موجود ہیں۔
جب اکثریت حقیقی زندگی میں اخلاقیات کا خیال نہیں کرتی تو پھر آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں سوشل میڈیا پر ہم لوگ مہذب بن کر رہیں گے۔ ویسے آج کے سوشل میڈیا نے تو پچھلے کچھ عرصہ سے زور پکڑا ہے، آپ میں سے جو لوگ دس بارہ سال پہلے سے انٹرنیٹ سے وابستہ ہیں وہ تو جانتے ہوں گے کہ ہم پاکستانی یاہو چیٹ رومز، آرکٹ اور پال ٹاک وغیرہ پر کیا گل کھلاتے رہے ہیں اور وہاں پر لوگ کیسی کیسی زبان استعمال کرتے تھے۔
پہلے بھی کئی لوگ گالیاں نکالتے اور جھوٹ بولتے تھے، پہلے بھی لوگ تحقیق کرتے اور برائی کا راز فاش کرتے تھے مگر اب یہ سب سوشل میڈیا پر بھی ہو رہا ہے مگر آسانی سے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے یہ سب کسی خاص گروہ تک محدود رہتا، تھوڑا بہت طاقتور چاہتا تو اس گروہ کو دبا دیتا اور اس گروہ کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح کوئی نہ سن سکتا۔ پہلے بھی گالیاں دینے والے پیٹھ پیچھے گالی دیتے اور اب وہی لوگ سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹ بنا کر چھپ کر گالیاں دیتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے پیٹھ پیچھے جسے گالی دی جاتی وہ سنتا نہیں تھا مگر اب سوشل میڈیا پر وہ گالی سن رہا ہے۔ بالکل اسی طرح پہلے کوئی بندہ یا گروہ نہایت مشکل سے کسی برائی یا جھوٹ کا پردہ فاش کرتا اور پھر برے لوگ اس بندے یا گروہ کو ایسا دباتے کہ کسی کو کان و کان خبر نہ ہوتی مگر اب سوشل میڈیا پر برائی یا جھوٹ کا پردہ تو فاش ہوتا ہے لیکن کوئی اس پردہ فاش کرنے والے بندے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پہلے چند لوگ ہوتے تو مارے جاتے مگر اب لاکھوں کروڑوں لوگ ایک ساتھ آواز بلند کرتے ہیں تو بُروں کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ پہلے عوام کی آواز کوئی نہیں سنتا تھا مگر اب سوشل میڈیا کے ذریعے عوام برائی کے ایوانوں تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے برائی بھی آسانی سے پھیلائی جا سکتی ہے مگر آپ غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ سوشل میڈیا اتنی برائی نہیں پھیلا رہا جتنا لوگوں کو شعور دے رہا ہے اور اچھائی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر تو منٹوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے اپنے جھوٹ بھی منٹوں میں سامنے آ جاتے ہیں اور تھوڑی سی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ جاتا ہے کہ فلاں بات ٹھیک ہے اور فلاں غلط۔
اگر آپ حقیقی زندگی اور سوشل میڈیا کا موازنہ کریں گے تو یقیناً جان جائیں گے کہ سوشل میڈیا تو پھر بھی مہذب ہے کیونکہ جس طرح حقیقی زندگی میں گالیاں اور جھوٹ چل رہے ہیں سوشل میڈیا پر تو اس کا عشرے عشیر بھی نہیں۔ یہ جنہوں نے سوشل میڈیا پر دھاوا بول رکھا ہے، میرا دل کرتا ہے ان کو بازو سے پکڑوں اور چل پھر کر اپنا معاشرہ دیکھاؤں کہ دیکھو عام عوام آپ کا ذکر خیر کن الفاظ میں کر رہی ہے تو ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ یقین کرو اگر یہ سب حقیقی زندگی میں جھوٹ اور گالیاں سن لیں تو کہیں گے کہ سوشل میڈیا ہی بہتر ہے۔ کم از کم یہاں پر اس قسم کی گالیاں تو نہیں پڑتیں جو عام طور پر لوگ دیتے ہیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ اب سوشل میڈیا کا پاؤں ہر برے کی دم پر آ رہا ہے تو یہ چیخ رہے ہیں اور سوشل میڈیا میں انہیں صرف گالیاں اور جھوٹ ہی نظر آتے ہیں۔ پتہ نہیں انہیں معلومات، علم اور تحقیق کرتے ہوئے بندے نظر کیوں نہیں آتے۔ مجھے لگتا ہے، ان کا مقصد ہے کہ سوشل میڈیا کو اتنا بدنام کر دو کہ لوگ کہیں، چھوڑوں جی یہ سوشل میڈیا والے تو گالیاں دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔ سوشل میڈیا کیونکہ ان کے روایتی ہتھکنڈوں اور جھوٹ کو اب ناکوں چنے چبوا رہا ہے اور انہیں اپنی حکمرانی جاتی نظر آ رہی ہے تو یہ سوشل میڈیا کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑھ گئے ہیں۔ یہ اچھائی کے دعویدار، یہ کیوں نہیں سوچتے کہ گالی تو پہلے بھی معاشرے میں موجود تھی اور اب وہی معاشرہ سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ ظاہر ہے اب معاشرے کی سوچ اور رہن سہن کا اثر سوشل میڈیا پر بھی تو ہونا ہی ہے۔ ”سوشل میڈیا کے غیر سوشل رویہ“ کی شکایت کرنے والوں سے فقط اتنی گذارش ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا غیر سوشل رویہ نہیں بلکہ یہ عوام کا رویہ ہے۔ جیسی عوام کی تربیت کا بیج بویا تھا اب سوشل میڈیا پر ویسا ہی کاٹنا ہو گا۔ پتہ نہیں یہ لوگ ”روایتی میڈیا“ کا موازنہ ”سوشل میڈیا“ سے کیوں کرتے ہیں۔ شاید یہ ملتے جلتے ناموں کی وجہ سے ڈر رہے ہیں۔ انہیں اتنی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ”روایتی میڈیا“ اداروں کی صورت میں وجود رکھتا ہے جبکہ سوشل میڈیا تو عوام ہے۔ یہ عوام پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔ جو پہلے بھی بولتی تھی اور اب بھی بول رہی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ پہلے یہ عام محفلوں میں بولتے تھے اور اب یہ انہیں محفلوں کو انٹرنیٹ پر لے آئے ہیں۔ کوئی تو ان ”سیانوں“ کو سمجھاؤ کہ بات انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کی نہیں بلکہ بات عوام کی آواز کی ہے۔ جیسی عوام ویسا اس کا سوشل میڈیا۔
انٹرنیٹ نے جہاں دیگر کاموں میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں پر برے لوگوں کے لئے بھی آسانیاں ہوئی ہیں۔ اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم انٹرنیٹ کو ہی برا کہنے لگ پڑیں اور سوشل میڈیا کو چھوڑ دیں۔ گاڑی مریض کو ہسپتال بھی پہنچاتی ہے اور چور کو فرار بھی کرواتی ہے۔ اب کیا ہم گاڑیوں کو ملک بدر کر دیں؟ نہیں، ہمیں چوری کو روکنا ہے، نہ کہ گاڑی کو۔ بالکل اسی طرح ہر لحاظ سے عوام کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ سوشل میڈیا کے خلاف دھاوا بولنے کی۔ برائی کی نشاندہی ضرور کریں مگر ٹیکنالوجی کو برا تو نہ کہیں۔ یہ بہانوں بہانوں سے لوگوں کو ٹیکنالوجی سے دور نہ کریں بلکہ سوشل میڈیا کا صحیح استعمال بتائیں۔ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو عوام کی اخلاقی تربیت کریں۔ ویسے میں تو بہت پرامید ہوں کہ یہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہمارے معاشرے میں آسانی سے بہتری لائے گا۔ باقی گالی اور جھوٹ چاہے سوشل میڈیا پر ہو یا حقیقی زندگی میں، ہر صورت میں غلط ہے۔
مسئلہ یہ ہے۔ روایتی میڈیا سے جن لوگوں کی روزی روٹی وابستہ ہے ۔وہ افراد ۔ سوشل میڈیا کو ایک تیزی سے ابھرتے ہوئے حریف کے طور پہ دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا حریف۔ جو فی الفور اور نہائت سرعت سے ۔ لگی لپٹی کے بغیر۔ حقائق بیان کر دیتا ہے۔ تحقیق کرتا ہے۔ رائے عامہ تیار کررہا ہے۔ اور اسکا کوئی مالی معاوضہ نہیں مانگتا۔ اور یہ وہ نکتہ ہے جو یاران محفل سے ہضم نہیں ہو پارہا۔ اور وہ عام افراد کو سوشل میڈیا سے متنفر کرنے کی بھرپور جد و جہد کر رہے ہیں۔ یہ انکی روازی روٹی کا مسئلہ ہے۔ انکی بقا کا مسئلہ ہے۔ روائتی میڈیا سے وابستہ ادارے اور انکے تنخواہ دار اور بزم خود اپنے آپ کودانشور سمجھنے والے ۔ سوشل میڈیا کو ایک حریف اور رقیب کے طور پہ دیکھ رہے ہیں۔
خاطر جمع رکھیئے۔ جوں جوں عام عوام۔ سوشل میڈیا کی طرف متوجہ ہونگے۔ اور ایسا ہونا ایک فطری بات ہے۔ توں توں روائتی میڈیا کے ”دانشوران “ کی سوشل میڈیا سے چشمک میں اضافہ ہوگا۔
بہت خوب
اپ اور جاوید گوندل صاحب جس طرح علمی انداز میں
سوشل میڈیا کی وکالت کر رہے ہیں ، یہ تاریخ کا حصہ بن رہا ہے
انے والی نسلوں نے اس کو نصاب بنا کر اصول وضع کرنے ہیں
اسلاًم علیکم،
اصل میں بات یہ ہے کہ جب سے میڈیا نے پاکستان میں قدم رکھا ہے میڈ یا وا لے اپنے آپ کو دودھ کا دھلا ثا بت کر رہے ھیں
وہ کتنا ھی جھو ٹ بو لیں لگتا ہے کہ سات خون معا ف والی بات ہےاور اپنے اوپر تو وہ کوئی بات سننا تو گوارہ ھی نھیں کرتے۔یہ اپنے آپ کو اعلی تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں اور اپنے آگے کسی کی نہیں سنتے۔جب یہ رویہ عوام نے محسوس کیا تو ان میں بے چینی نے
جنم لیا اور پھر چند جوانوں نے اس کام کا بیڑا اٹھا یا کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ د کھا نا ہے بس پھر کیا تھا وہ کہتے ہیں نا کہ ”
میں تو اکیلا ہی چلا تھا مگر کاروان بنتا چلا گیا” بس جناب جب سے ہی سو شل مڈ یا کا طو طی بول رہا ہے اور روایتی مڈ یا دم سادھ چکا
ہے۔خدا ! کرے کہ سو شل میڈ یا کی تلوار اسی طرح ان روایتی میڈ یا پہ تیز دھار کی طرح گر جتی رہے۔ آمین
انٹر نیٹ سوشل میڈیا کو اپنےعزائم اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کا عدو جاننے والے پاکستانی میڈیا پرسنز کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ اب انٹرنیٹ سوشل میڈیا دنیا کا مقبول ترین میڈیا بن چکا ہے۔ اسی فعال میڈیا کی بدولت اب عوام معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی اخبار اورسرکاری یا غیرسرکاری چینلوں کی محتاج نہیں رہی۔ اہم بات یہ کہ یہ سوشل میڈیا نہ صرف دنیا بھر کی نیوز اور معلوماتی سائیٹس سے انفورمیشن حاصل کرتا ہے بلکہ وہ معلومات بغیر کسی دباؤ کے دوسروں تک پہنچائی بھی جاتی ہیں۔ یہ کڑوا سچ میڈیا کو برداشت کرنا ہو گا کہ میڈیا برادری اپنے ہم پیشہ بھائیوں کے گھناونے جرائم چھپاتی ہے مگر سوشل میڈیا پر ان کی کالی کرتوتوں کی تشہیر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی پے۔ میں ذاتی طور پر حامد میر، طلعت حسین، جاوید چوہدری اورانصارعباسی جیسے معزز اینکر پرسنز کی عزت و احترام کرتا ہوں کہ ان صاحبان نے کرپشن اورعدلیہ جیسے اہم قومی اموراور لاپتہ افراد جیسےحساس موضوعات پر بڑی جرات کے ساتھ انتہائی مظبوط آواز بلند کی ہے۔ مگر میڈیا کے ان بڑے ناموں حامد میر یا جاوید چوہدری کی طرف سے انٹر نیٹ سوشل میڈیا کے بارے تنقیدی کالمز لکھنے کی مذمت نہ کرنا بھی درست نہ ہو گا ۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ ان کے اداروں یا صحافتی برادری کا دباؤ ہو۔ لیکن میرے مطابق اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میڈیا کے لوگ اپنی میڈیا برادری کے نمائندوں پر انٹرنیٹ سوشل میڈیا کی فری سٹائل شدید تنقید اورعین جائزغصہ برداشت نہیں کر پا رہے۔ لہذا پاکستان میڈیا کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی ہو گی کہ انٹرنیٹ سوشل میڈیا عوام کی خالص آواز ہے۔سو ان کے میڈیا پروگرامز اور میڈیا پرسنز پر اس سوشل میڈیا کی تنقید ہی دراصل عوام کا براہ راست اور خالص ردعمل ہے
http://farooqdarwaish.com/blog/?p=1083
جو لوگ لائق دشنام و صد لعنت ہیں وہی ملعون اس دھرتی کے ننگ ہیں۔ سوشل میڈیا پر قابل اعتراض زباں درازیوں کا الزام لگانے والے صرف عامر لیاقت حسین کی ٹائم بریک ویڈیوز ہی نہیں اپنے روزمرہ ٹاک شور میں دست و گریبان شرفا ، عابدی کا حسن بیاں اور سزا یافتہ جیالیوں کئ بے باکیاں دیکھیں ۔۔۔۔ آئینہء عالم ہے جو سرکار کا چہرہ
خوش آباد
میرا ایک سوال ہے کہ آپ نے لکھا کہ social-media-is-public “سوشل میڈیا عوام ہے” تو عوام کی تربیت کس نے کرنی ہے اور آیا کہ جنہوں نے عوام کی تربیت کرنی ہے وہ اپنا فرض بطریقِ احسن ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟
Very nice article. I am comforted to know that social media is helping people see the truth for themselves
اب سوشل میڈیا کا انکار تو کیا نہیں جا سکتا ہماری یہ عادت ہے کہ پہلے پہل ہم کسی بھی چیز کا استعمال اس انداز سے کرتے ہیں کہ اس کے مضر اثرات مثبت سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن امید ہے کہ رفتہ رفتہ لوگ سنبھل جائیں گے جہاں فوجی بوٹوں کے سائے میں مڈیا پلا ہو اور عوم مارشل لاء میں جوان اور بوڑھے ہوئے ہوں ان لوگوں میں آزادی کے فوائڈ اٹھانے کی صلاحیت دیر سے پیدا ہوتی ہے اس لئے وہ ٹی وی پر جائے گا تو جھغرے کے گا انٹر نیٹ پر گندی فلمیں اور پوز دیکھے گا کہ وقت فراغ کا درست استعمال تو اس نے سیکھا نہیں لیکن یا تو معاشرہ انسان کو درستگی سکھاتا ہے یا زمانے کی ٹھوکریں اور غالبا ہم ان لوگوں میں سے ہیں جن کو معاشرے یا مذہب نہیں سمجھا سکتا بلکہ ان کو زمانے کی ٹھوکریں سمجھائیں گی۔