کیا آپ نے امریکی لکھاری اور کوہ پیما ”جان کراکائر“ کی کتاب ”اِن ٹو دی وائلڈ“ (Into the Wild) پڑھی ہے؟ اجی وہی سچی کہانی پر لکھی کتاب کہ جس پر ہالی ووڈ نے فلم بھی بنائی۔ وہ فلم کہ جس میں 24 سالہ کرسٹوفر تعلیم کے بعد اپنا کریئر بنانے کی بجائے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شاید سچائیوں اور حقیقی خوشیوں کی تلاش میں مہم جوئی پر نکل پڑتا ہے۔ شمالی امریکہ میں پیدل چلتا اور سفر کی مشکلات برداشت کرتا آخر کار الاسکا کے جنگل بیابانوں میں غالباً ”دینالی نیشنل پارک“ کے ویرانوں میں پہنچ جاتا ہے۔ وہاں اسے ایک پرانی کھڑی گاڑی(بس) ملتی ہے اور وہ اسے ”جادو بس“ کا نام دیتا ہے۔ کرسٹوفر اسی متروک بس میں رہائش پذیر ہو جاتا ہے۔ جنگل بیابان اور تنہائی میں خوش ہوتا ہے۔ فطرت کے بالکل قریب رہتا ہوا کتابیں پڑھتا، اپنی نئی جنگلی زندگی کے متعلق سوچتا اور ڈائری لکھتا رہتا ہے۔ خوراک کے لئے بندوق کی مدد سے شکار کھیلتا ہے۔ وہ 113 دن ایسی زندگی جیتا ہے۔۔۔
آ جا کر انسان ایک سماجی جانور ہے اور یہ دیگر انسانوں کے ساتھ ہی مستقل رہ سکتا ہے۔ چونکہ فطرت بے نیاز اور بعض اوقات اتنی سخت ہوتی ہے کہ انسان کو ظالم محسوس ہونے لگتی ہے۔ کرسٹوفر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے اور تنہائی میں اس کی زندگی مشکلات کا شکار ہونے لگتی ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ ”حقیقی خوشی دوسروں کے ساتھ بانٹنے سے ہی حاصل ہوتی ہے“۔ وہ اپنے گھر اور دوستوں میں واپس جانے کے لئے بیتاب ہو جاتا ہے۔ جب وہ ادھر آیا تھا تو تب سردیاں تھیں لیکن پھر موسم گرما کی وجہ سے برفیں پگل کر لمبے چوڑے دریاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہیں اور ان کو عبور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کرسٹوفر بس میں ہی بسیرا کیے بہتر حالات کے انتظار میں رہتا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ موسم سازگار ہونے سے پہلے ہی خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔۔۔
یہ تحریر اس فلم کا ریویو نہیں اور کرسٹوفر کی کہانی کے صرف ایک پہلو پر بات کی ہے جبکہ اس فلم میں زندگی، مادیت پرستی اور کریئر کے حوالے سے بھی بعض بڑے اچھے مکالمے موجود ہیں۔ اور میری نظر میں کرسٹوفر ایک زبردست شخص تھا اور ایسے لوگ عموماً معاشرے کی بھیڑوں کے ساتھ بھیڑ چال نہیں چل سکتے۔۔۔ ویسے اکثر سیاح اور مہم جو افراد نے پہلے سے ہی ”انٹو دا وائلڈ“ کتاب پڑھ یا فلم دیکھ رکھی ہوتی ہے۔ اور جنہوں نے نہیں دیکھی، ان کو دیکھنے کا مشورہ ہے۔ اور جو لوگ بغیر مکمل تیاری کیے اور بہت کچھ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ایویں جنگلوں میں نکلنے یا مہم جوئی کا سوچتے رہتے ہیں، میں انہیں جانے سے پہلے یہ کتاب پڑھنے یا فلم دیکھنے کا ضرور کہتا ہوں۔۔۔ خیر کرسٹوفر کی موت کے کچھ دنوں بعد ہرنوں کے شکار پر آئے شکاریوں کو اس کی لاش بس سے ملتی ہے۔ کہتے ہیں کہ فلم بننے کے بعد وہ بس مشہور ہو گئی اور کئی سیاح الاسکا کے ویرانوں میں کھڑی اس بس کو دیکھنے جاتے۔ اس دوران کئی لوگ مشکلات کا شکار ہوئے اور بعض جان سے بھی گئے۔ بس دیکھنے جانے والے لوگ اگر کسی مشکل میں پھنستے تو انتظامیہ ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتی لیکن آخرکار تنگ آ کر انتظامیہ نے بھی وہی کیا کہ جو اکثر تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے، یعنی کسی بہتر حل کی بجائے مدعا ہی غائب کر دیا۔ گویا ”نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری“۔ خبر ملی ہے کہ کچھ دن پہلے اگلوں نے امریکی فوجی ہیلی کاپٹر کی مدد سے بس اٹھا کر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دی ہے۔۔۔ ویسے میں سوچوں کہ کیا کوئی ہمارے لئے سات آٹھ ہزاری نہ سہی کوئی چار پانچ ہزاری چوٹی اٹھا کر دریائے چناب کنارے منتقل کر سکتا ہے؟ 😛 کر دیو نئیں تے اسی اپنی چوٹی اُگا لینی جے 😀 چوٹی اُگانے سے یاد آیا کہ میں نے اپنے ایک دوست کو پوچھا کہ تم دہائیوں پہلے گلگت بلتستان جاتے رہے اور ان اسفار کی باتیں سناتے ہو، مگر کبھی ”پسو کونز“ کی بات نہیں کی، کیا اُدھر کبھی نہیں گئے تھے؟ جواب میں دوست بولا کہ تب ابھی پسو کونز اُگی ہی نہیں تھیں۔ 🙂
بہرحال بات ہو رہی تھی کرسٹوفر کی بس کو الاسکا سے کہیں اور منتقل کرنے کی۔ ویسے ہم اس بس کی کیا دہائی دیں، اطلاعات کے مطابق ہماری تو اپنی ”جادوئی بس“ کہیں غائب کر دی گئی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ہمارے علاقے میں بھی ایسی ہی ایک بس تھی اور یہ تصویر اسی کی ہے، جو کہ سوا سال پہلے بنائی تھی۔ اس بس کو یہاں کھڑے اتنا عرصہ ہو چکا تھا کہ اس کے آگے پیچھے اندر باہر اُگنے والے درخت بھی جوان ہو چکے تھے۔ تصویر پر تھوڑا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ کچھ درخت تو بس کا فرش اور چھت چیر کر بھی باہر نکل چکے تھے۔ خیر یہ بس ہمارے دوست عباس مرزا کی کھوج تھی اور بس کے اوپر بیٹھے سوچوں میں گم بھی وہی حضرت ہیں۔۔۔ آپس کی بات ہے کہ جب ہم اس بس کو دیکھنے اور اس کی فوٹوگرافی کرنے گئے تو میں نے عباس مرزا سے کہا کہ بس کے اوپر چڑھ کر یوں بیٹھو۔ دراصل ”ان ٹو دا وائلڈ“ فلم کے پوسٹر میں جس طرح کرسٹوفر بس کے اوپر بیٹھا دکھایا گیا تھا، میں بھی کچھ ویسا ہی منظر قابو کرنا چاہتا تھا۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں