کچھ دن پہلے شام کے پہر طوفان آیا، بجلی بند ہو گئی، کئی درخت گر گئے۔ ہمارے گھر میں لگا سات آٹھ سال پرانا امرود کا درخت بھی شہید ہو گیا۔ کہنے والوں کے لئے اک درخت ہی تو تھا مگر ہمارے لئے تو ویرانی سی کر گیا۔ ویسے بھی سیمنٹ سریا اُگانے والے کیا جانیں درخت کی اوقات۔۔۔ خیر طوفان شدید تھا اور بجلی تو طوفان کی بُو سے ہی بند ہو جاتی ہے۔ وہ کیا ہے کہ ہمارے ہاں پاور گرڈ اور ٹرانسمیشن لائن کی حالت نہایت پتلی ہے۔ یہاں تو کوئی تاروں کے قریب کھڑا ہو کر تھوڑا زور کا سانس لے تو تاروں کو آندھی لگتی ہے اور بجلی دھوتی اٹھا کے دوڑ لگا دیتی ہے۔ اور تو اور اگر کوئی جانور کھمبے کے پاس موتر دے تو واپڈا سیلاب میں نہا جاتا ہے اور کئی روز تک بجلی ندارد۔۔۔ اب تو ویسے بھی شدید طوفان تھا اور بجلی بند ہونا تو فرض تھا۔
رات کے پہلے پہر تک یو پی ایس نے ساتھ دیا۔ آخر کوئی کب تک ساتھ نبھاتا ہے۔ تھک ہار کر وہ بھی چپ ہو گیا۔ پھر بچوں کو ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دیتا رہا۔ آخر خیال آیا اور گاڑی کی بیٹری پر پنکھا چلایا۔ خود صحن اور پھر چھت پر جا کر آسمان کو تکنے لگا۔ منظر بہت کھلا ہوا تھا۔ تارے شدید جگ مگ کر رہے تھے لیکن جنوب مشرق میں افق کے قریب بادل بھی چمک رہے تھے۔ بہت زبردست ماحول تھا۔ گویا کڑکتی آسمانی بجلی کے ساتھ ساتھ آکاش گنگا(ملکی وے گلیکسی) کی تصویر بنے۔۔۔ واہ سبحان اللہ۔ میں کیمرے لینے گیا۔ مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ وہ کیا ہے کہ اس دوران اندھیروں کا فائدہ اٹھاتا سنگچور (کامن کریٹ) سانپ صاحب وارد ہوئے۔ جناب کا شمار برصغیر کی افسر شاہی میں ہوتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ کافی زہریلا واقع ہوا ہے۔ اکثر رات کو نکلتا ہے، کسی قابل نرس کی طرح ایسے ٹیکہ لگاتا ہے کہ کاٹنے کا درد بھی نہیں ہوتا اور سوئے ہووں کو ہمیشہ کے لئے سلا دیتا ہے۔ خیر ہم جنگلی حیات کو مارنے کے قائل نہیں لیکن کریٹ صاحب نے چاردیواری کا تقدس پامال کیا تھا، اوپر سے جناب کے چال چلن ایسے تھے کہ ہمیں اپنی بقاء کے لئے مجبوری میں ہتھیار اٹھانا پڑا۔ اور پھر گلیکسی کی تصویر کا ہوش ہی کسے رہا۔
خدا خدا کر کے جیسے تیسے رات کٹی۔ صبح ہوئی تو صحن میں گرے پڑے درخت کو کاٹ کر ٹھکانے لگانے لگا۔ بہت ہی ”ساؤ رُکھ“ تھا یعنی ایسا بھلا مانس اور پھلدار عاجز درخت کہ ہنستے مسکراتے کٹتا رہا۔ خیر بجلی بند ہوئے بارہ گھنٹے گزر گئے مگر تاحال نہ بحال۔ دن کو سورج نے لشکارے مارے، سولر پینل کو خوراک ملی تو کچھ سکون آیا۔ پھر شام ہونے کو آئی مگر بجلی نہ آئی۔ چوبیس گھنٹے ہو چکے تھے مگر غفلت کی نیند سوتے محکمے کی آغوش میں بجلی بھی سوتی رہی، گرمی پھنکارتی رہی۔ خیر رات کو صحن میں چارپائی بچھائی۔ بمبوکاٹ کی بیٹری سے موبائل اور نیٹ ڈیوائس کو چارجنگ لگائی۔ پھر ستاروں پر کمندیں ڈالنے لگا۔ چھوٹے ہوتے تقریباً روز صحن میں لیٹے ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے مگر اب ٹیکنالوجی نے بہت کچھ برباد کر دیا ہے۔ بہرحال وہ نظارہ اس قدر خوبصورت تھا کہ جیسے ہاتھ بڑھانے سے ستاروں کو چھو لوں گا۔ میں ایسا مست ہوا کہ گرمی محسوس ہوئی نہ مچھر۔۔۔ ویسے گرمی کا توڑ ٹھنڈا شربت ہو گا کسی اور کے لئے۔ ہم تو گرمیوں میں بھی گرم پانی پینے کے قائل ہیں۔ گویا لوہے سے لوہا کاٹنے والا معاملہ ہے۔ البتہ لسی ہلکی سی ٹھنڈی یا معتدل درجہ حرارت۔۔۔ باقی ستاروں سے لبریز آسمان کے سائے میں چائے۔۔۔ آئے ہائے۔۔۔
رات تقریباً ساڑھے دس بجے دوستوں کے واٹس ایپ گروپ میں گپ شپ چلی تو عبدالستار نے کہا کہ بجلی بند ہے اور آسمان بھی صاف ہے، گویا موقع بھی ہے اور دستور بھی، لہٰذا آکاش گنگا کی فوٹوگرافی ہی کر لو۔ میں نے کہا کہ کل اسی کی تصویر بنانے لگا تھا تو کریٹ صاحب آ گئے، آج کہیں ”کوبرا“ نہ آ جائے۔ بہرحال مذاق مذاق میں بات آئی گئی ہو گی۔ پھر چائے لے کر چھت پر جا بیٹھا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بجلی بند، نیند نہ آنے اور گرمی کی وجہ سے کڑھتا اور خود کو ہلکان کرتا رہتا۔ گو کہ جب درد حد سے بڑھتا ہے تو یہ کام بھی کر لیتے ہیں لیکن اس رات قدرت اذیت سے بھی لذت کشید کروا رہی تھا۔ کافی دیر چھت پر بیٹھا ستاروں کو تکتا رہا اور تخیل اڑانیں بھرتا رہا۔ اور پھر موبائل پر فیس بک کھولی۔ پہلی پوسٹ ہی رانا عثمان کی تھی کہ جس میں وہ کتابوں، میوزک اور محبت کے حوالے سے فوٹوگرافی کے متعلق فرما رہے تھے۔ آپس کی بات ہے کہ اسی تحریر سے انکشاف ہوا کہ رانا صاحب ”سالوں“ سے میوزک سنتے ہیں۔ جبکہ ”سالہاسال“ سے سننا مناسب رہتا ہے۔ اکثر لوگ سال کی جمع سالوں لکھتے ہیں اور اکثر جگہ یہ غلط العام/غلط العوام پڑھنے کو ملتا ہے۔ ویسے سال کی جمع بھی ”سال“ اور جمع استثنائی ”سالہا“ ہوتی ہے۔ بہرحال پہلے عبدالستار کا گلیکسی کی تصویر کا کہنا اور پھر راناصاحب کی فوٹوگرافی کے متعلق پوسٹ نظر آنا، گویا فطرت نے ذہن سازی شروع کر رکھی تھی۔ لہٰذا میں نے کہکشاں کے بازو کو دیکھ کر اندازہ کیا کہ کچھ نہ کچھ پکڑ میں آ جائے گا۔
رات کے دو بج رہے تھے کہ جب چھت سے نیچے گیا۔ کیمرہ وغیرہ اٹھایا اور واپس چھت پر پہنچا۔ سیٹ اپ کیا اور لانگ ایکسپوژر سے یہ تصویر بنائی۔ تصویر میں موجود بائیں ہاتھ والے گھر میں جنریٹر چنگھاڑ رہا تھا اور بلب روشن تھا۔ جبکہ دوسرے گھر پر میں نے خود ٹارچ سے روشنی پھینکی۔ ویسے کسی کے گھر پر یوں روشنی مارنا میری نظر میں غیر اخلاقی حرکت ہے لیکن یہ گھر نہیں بلکہ صرف مکان ہے۔ اکثر ایسے مکانوں کو دیکھ کر مجھے فاروق روکھڑی صاحب کا شعر یاد آتا ہے ”تھیں جن کے دم سے رونقیں شہروں میں جا بسے … ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا“۔
تصویر بنانے کے بعد بھی کافی دیر چھت پر بیٹھا ”آوارہ“ فلم کا گانا گنگناتا رہا ”آوارہ ہوں… یا گردش میں ہوں… آسمان کا تارہ ہوں… آوارہ ہوں۔۔۔ آباد نہیں برباد سہی…گاتا ہوں خوشی کے گیت مگر… زخموں سے بھرا سینہ ہے میرا… ہنستی ہے مگر یہ مست نظر… دنیا میں تیرے تیر کا یا تقدیر کا مارا ہوں…آوارہ ہوں“۔۔۔
تصویر میں گلیکسی کے بازو کے ساتھ بائیں ہاتھ پر جو موٹا ستارہ نظر آ رہا ہے، وہ دراصل ستارہ نہیں بلکہ ہمارے نظامِ شمسی کا سیارہ مشتری(Jupiter) ہے۔ ”مشتری ہوشیار باش“ کے ساتھ والا قدرے کم موٹا سیارہ زحل(Saturn) ہے۔ خیر جب چھت سے نیچے آیا تو پو پھوٹ رہی تھی اور مجھے دودھ کے لئے برتن لے کر ڈیرے جانا تھا اور میں چلا گیا۔ وہ صبح بہت حسین تھی۔ اُس رات شبنم پڑی اور اس کے موتی گھاس پر شدت سے چمک رہے تھے۔ اس کے بعد دن کو شدید گرمی پڑی مگر سولر نے ساتھ دیا اور دو دن سے جاگا منظرباز سو گیا۔ پچھلے پہر اٹھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ”ہنوز دلی دور است“۔ بجلی ندارد۔ ابھی تک بحال نہیں ہوئی۔ اب میں تھوڑا گھبرایا اور جب میں گھبراتا ہوں تو۔۔۔ خیر چھڈو۔ اُس رات بھی ستارے گردش میں تھے لیکن اڑتالیس گھنٹے یعنی دو دن بعد بجلی آ چکی تھی اور روشنی کی آلودگی کے سبب ”نائیٹ فوٹوگرافی“۔۔۔ نہ جی نہ۔۔۔ویسے بھی ستارے تو ازل سے گردش میں ہیں اور ابد تک رہیں گے۔
کل کھیل میں ہم ہوں نہ ہوں
گردش میں تارے رہیں گے سدا
سوال تو بس یہ ہے کہ ہم نے اپنے اپنے دستیاب وسائل کو لے کر اس نیلے سیارے زمین پر کیا کیا کھیل کھیلا۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں