غروب ہوتے سورج کی آخری کرنیں ہمالیہ کے پیرپنجال سلسلے پر پڑ رہی تھیں اور میں فطرت کی تجربہ گاہ میں کیمرہ لگائے سیکھ رہا تھا۔ گویا مظاہرِ قدرت استاد تھے اور میں شاگرد۔ ویسے میں تو ہمیشہ سے ہی شاگرد ہوں۔ بابا جی نے کہا تھا کہ پُتر اگر آگے سے آگے بڑھنا چاہتے ہو تو کم از کم سیکھنے کے معاملے میں انا کو مار دینا اور ہمیشہ شاگرد بن کر رہنا، علم کے آگے سر جھکائے رکھنا۔ بس جی! اسی لئے آج تک طفلِ مکتب ہی ہوں اور کسی کو اپنا شاگرد نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ وہ ایک کہاوت ہے کہ بکری کے بچے جب جوان ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی ماں پر ہی ”ٹپوشیاں“ لگانے لگتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی کچھ شاگرد بھی اپنے استاد پر چڑھ کر← مزید پڑھیے
جس طرح گوبھی گوبھی اور بندے بندے ہوتے ہیں، اسی طرح انٹرنیٹ انٹرنیٹ اور حقیقی زندگی حقیقی ہوتی ہے۔ بھائی جی! سالگرہ کیک کی تصویر اور اصلی کیک میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اپنے انٹرنیٹ والے خاندان کے لئے بھی وقت نکالا کریں اور ملتے رہا کریں۔ اس سے محبتیں بڑھتی ہیں۔ ویسے اچھی جان پہچان کے بعد ملیں، یہ نہ ہو کوئی آپ کو اغواء کر لے۔← مزید پڑھیے
بلاگر دنیا تبدیل کر رہے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں لہٰذا اردو بلاگستان کو طاقتور بنانے کے لئے بین الاقوامی اردو بلاگرز کانفرنس لاہور میں منعقد ہو رہی ہے۔ اردو کی ترقی کے لئے جو شرکت کر سکتا ہے وہ ضرور کرے۔ بلاوجہ مخالفت اور بغیر ثبوت الزام تراشی کرنے والوں سے گذارش ہے کہ بلاگستان کو مزید کمزور نہ کرو، خدارا ہوش میں آؤ اور اللہ سے ڈرو۔← مزید پڑھیے
پرندے چہچہاتے وادی میں اپنی اڑانیں بھر رہے تھے۔ پرندوں اور راما کی خوبصورت صبح نے خیمے پر دستک دیتے ہوئے کہا اٹھو دیکھو کتنی حسین صبح باہر تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ خیمے کا دروازہ کھولا تو یک دم ٹھنڈی ہوا کا جھونکا روح تک اتر گیا۔ فطرت نے دونوں بازو کھول کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا← مزید پڑھیے
پانچ سات پریاں، بغیر سر ڈھانپے اور ننگے پاؤں دوڑتیں ہمارے پاس آ کھڑی ہوئیں۔ ایک دفعہ تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس طرح پریوں کا ریوڑ دیکھ کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے اور مجھے لگا کہ یقینا یہ کوئی خواب ہے یا پھر میں کوہ ہمالیہ کی بجائے کوہ قاف پہنچ چکا ہوں← مزید پڑھیے