پہاڑوں پر پریوں کی جگہ ڈفریاں ناچنے لگیں۔ جھرنوں نے اپنے حالِ دل سنائے تو خود کلامی کرتے ہوئے خیال آیا کہ پھر میں کیا ہوں۔ درخت خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے تو سوچ راجہ کی آپ بیتی پڑھنے اٹلی پہنچی، تو ساتھ ہی عام بندے کا حال دل سننے خوامخواہ میں جاپان چلی گئی← مزید پڑھیے
حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے کیونکہ ہمارا آج کچھ یوں ہے جس میں عبدالقدوس ڈیٹا سنٹر کے مالک کی بجائے ریٹرھی پر پانچ پانچ سو میں ڈومینوں کی سیل لگا رہا ہے۔ ڈفر، جعفر، محمد سعد، خورشید خان، عدنان شاہد، افتخار اجمل بھوپال، تانیہ رحمان، عثمان، عمیر ملک، محمد بلال خان، محمد صابر، یاسر عمران مرزا، محمد وارث، فہد، محمد اسد، یاسر خومخواہ جاپانی اور خاور کھوکھر← مزید پڑھیے
یہ سب ایک تحریر”موجودہ دور میں اردو زبان“ کے جواب میں لکھا ہے۔ لگتا ہے لکھاری کو کچھ باتوں کا علم نہیں تھا جبھی وہ کئی جگہوں پر غلطی کر گئے اور ساتھ ساتھ اردو کمپیوٹنگ کی تاریخ میں کافی کچھ چھوڑ گئے۔ تحریر میں کئی باتیں ایسی ہیں جو میرے خیال میں تھوڑی وضاحت طلب ہیں۔ خیر جتنا کچھ میرے علم میں ہے اس کے مطابق جواب اور وضاحت کر دیتا ہوں← مزید پڑھیے
ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور یہی ضرورت چیخ و پکار کر رہی ہے لیکن ہمارے اکثر نوجوانوں نے صرف جنسی تسکین کو ہی ضرورت سمجھا ہوا ہے اور اس ضرورت کے تحت دن بدن ”محبت“ کے نئے سے نئے ماڈل ایجاد کر رہے ہیں۔ جیسے موبائلی محبت، انٹرنیٹی محبت اور فیس بکی محبت وغیرہ← مزید پڑھیے
اگر کوئی علمی مقاصد کے لئے انگریزی سیکھے پھر بھی بات کوئی ہے لیکن ہمارے ایک گروہ کو ”انگریزیا“ کی بیماری ہو چکی ہے۔ یہ بیمار اور غلام ذہن انگریزی کو اعلیٰ مرتبے کی زبان سمجھتے ہیں یعنی ”سٹیٹس سمبل“۔ یہ لوگ اس بیماری کی وجہ سے ”نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے“← مزید پڑھیے