رات کے آخری پہر ابھی پرستان کے دروازے پر ہی پریوں سے ہیلو ہائے ہو رہی تھی کہ ساتھ والے خیمے میں اچانک ”ٹاں ٹاں“ کی آواز بلند ہوئی۔ میں سمجھ گیا کہ آفت نازل ہونے والی ہے۔ آخر آفت سے جو واہیات مکالمہ ہوا، وہ بھی آگے بتاتا ہوں لیکن اس سے پہلے جان لیں کہ منہ اندھیرے جاگ کر جب مقامِ طلوع پر پہنچے تو عجب کیفیات سے دوچار ہوئے۔ ابھی سورج نہیں نکلا تھا اور شفق کی روشنی لاجواب تھی۔ نیچے وادی میں کہیں کہیں دھند کا پہرہ تھا۔ ہلکی ہلکی پُروا یعنی بادِصبا، نسیم سحر چل رہی تھی۔ وہ منظرنامہ شدید الشدید دلفریب تھا۔ اور جب منظرباز ایسے نظاروں میں محو ہوتا ہے تو ”تم“ میں کھو جاتا ہے اور تم← مزید پڑھیے
محبت کے ساتھ، خلوص کے ساتھ، جناب فلاں صاحب کے لئے، ٹھپ دستخط۔۔۔ کچھ یوں مجھ جیسے عام قارئین کے لئے اکثر بڑے لکھاری اپنی کتاب دستخط کرتے ہیں۔ مگر میری لائبریری میں ایک کتاب سوچ زار ایسی بھی ہے کہ جس کی مصنفہ مریم مجید ڈار نے ناچیز کے لئے ایسا لکھا کہ فطرت کے صد رنگ چہرے کو صورتِ عکس قید کرنے والے جوگی ایم بلال ایم کے لیئے۔ ستائیس افسانوں پر مشتمل یہ کتاب منجمد سوچ پر ہتھوڑے چلائے، معاشرتی بگاڑ پر کوڑے برسائے اور معاشرے کو جھنجھوڑے ہی جھنجھوڑے۔ مصنفہ کا بے باک قلم یہاں تک لکھتا ہے کہ← مزید پڑھیے
پاکستان بننے کے بعد جوگی چلے گئے اور ٹلہ ویران ہو گیا۔ لیکن جنگلوں میں مور ناچتے رہے۔ حالانکہ جنگل سے لکڑی چُرانے اور ٹلہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے، بولے تو خزانے کی تلاش کرنے والے چور ٹلہ جاتے رہے۔ ان کے علاوہ حقیقت کے متلاشی، تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے یا سیروسیاحت کے شوقین اِکادُکا بھی ٹلہ پہنچتے رہے اور موروں کا ناچ دیکھتے رہے۔ وہ بھی ایک جوگی تھا کہ جو چرخے کی کوک سن کر پہاڑ سے اتر آیا اور یہ بھی سیروتفریح کا شوقین ایک جوگی فوجی افسر تھا کہ جو ٹلہ سے نیچے فائرنگ رینج میں بیٹھا دوربین سے اکثر ٹلہ کی چوٹی کا جائزہ لیتا رہتا۔ آخر جوگی دل کی آواز سن کر پہاڑ چڑھ گیا اور پھر← مزید پڑھیے
ان جوگیوں کی محبت، عزت اور حوصلہ افزائی نے ایک دفعہ تو منظرباز کو تقریباً رُلا ہی دیا تھا۔ ویسے میں جس معاشرے کا حصہ ہوں یہاں باتیں سمجھ آئیں نہ آئیں مگر لوگ فتوے لگائیں، سولی چڑھائیں۔ خیر جو بھی ہو مگر ٹلہ جوگیاں کی مثبت توانائیاں ہم پر مہربان ہیں۔ بے شک ہم جوگی ہوئے نہ رانجھے۔ لیکن جب جب ٹلہ گئے، ہمارے کاسے میں جوگ ضرور ڈالا گیا۔ جام لبریز نہ سہی مگر چند بوندیں ضرور ٹپکائی گئیں۔ چند گتھیاں سلجھیں تو کبھی ہم نے خوف کے اُس پار جھانکا۔ کبھی ٹلہ کی چاندنی رات میں نور کے کرشمے دیکھے تو کبھی غروبِ آفتاب۔ فوٹوگرافی کی اس سے بڑی خوش نصیبی بھلا اور کیا ہو گی کہ← مزید پڑھیے
جوگی و نیم جوگی اور رانجھوں کی مہربانی کہ وہ تشریف لائے اور ہم نے ٹلہ جوگیاں کی مہم سرانجام دی۔ بتاتا چلوں کہ اپنا یار چناب تو سب سے پہلے، اس کے بعد ناران کا لالہ زار، نانگاپربت کا روپل چہرہ اور خاص طور پر ٹلہ جوگیاں کا میری سیاحت میں بہت بڑا کردار ہے۔ چناب کے بعد منظربازی کا اصل جوگ مجھے یہیں سے ملا تھا۔ ٹلہ جوگیاں ہزاروں برسوں کی تاریخ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ گروگورکھ ناتھ سے لے کر باباگرونانک تک، رانجھے سے لے کر علامہ اقبال تک، احمد شاہ ابدالی کے قتل عام سے لے کر تقسیمِ ہند پر اجڑنے تک، اور خزانوں کی تلاش سے لے کر غوری میزائل کے تجربے تک، بہت سی کڑیاں اور سلسلے ٹلہ جوگیاں سے جا ملتے ہیں۔ وارث شاہ کے رانجھے نے بھی یہیں پر کان چھیدوائے اور جوگی بنا اور ہم نے بھی← مزید پڑھیے