پچھلے دنوں دیکھا کہ بلاگستان ”افسانہ افسانی“ ہوا پڑا تھا۔ اپنے عمر بنگش، ریاض شاہد، علی حسان اور خرم ابن شبیر کی کیا ہی بات ہے۔ بڑے لوگ، بڑی باتیں۔ بھلا کسی کی کیا مجال کہ انہیں کچھ کہے۔ اس سب کے بعد بھی ہمارا قلم حرکت میں نہ آئے، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری سوئی ہوئی حس چھلانگ مار کر اٹھی۔ یوں برگر تو برگر، بریانی بھی ہم پر ہنسی۔ اسی اثنا میں ہماری ملاقات اشفاق احمد، سعادت حسن منٹو، ابن انشاء، ساغر صدیق، حکیم ناصر اور ممتاز مفتی صاحب سے ہوئی اور ہماری پوٹلی← مزید پڑھیے
جس طرح گوبھی گوبھی اور بندے بندے ہوتے ہیں، اسی طرح انٹرنیٹ انٹرنیٹ اور حقیقی زندگی حقیقی ہوتی ہے۔ بھائی جی! سالگرہ کیک کی تصویر اور اصلی کیک میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اپنے انٹرنیٹ والے خاندان کے لئے بھی وقت نکالا کریں اور ملتے رہا کریں۔ اس سے محبتیں بڑھتی ہیں۔ ویسے اچھی جان پہچان کے بعد ملیں، یہ نہ ہو کوئی آپ کو اغواء کر لے۔← مزید پڑھیے
شیراز علی نے بتایا کہ سکول و کالجز میں بلاگنگ بطور مضمون پڑھائے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ م بلال م نے اردو لکھنے اور بلاگ بنانے کے بارے میں تربیتی ورکشاپ کے دوران کہا کہ بلاگ کے اچھے ڈیزائن سے کچھ نہیں ہوتا جبکہ اچھی تحریر سے بہت کچھ ہوتا ہے۔ تمام شرکاء کو سرٹیفیکیٹ اور اردو بلاگنگ کی ترقی و ترویج کرنے والوں کو اعزازی اسناد دی گئیں← مزید پڑھیے
اردو بلاگرز کانفرنس کے دوسرے روز کا آغاز تلاوت کلام پاک کے بعد ناہید مصطفیٰ کی بات چیت سے ہوا۔ اس کے بعد کینیڈین کیٹی مرسر نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنے خیال کا اظہار کیا۔ چائے کے وقفے میں محمد حسن معراج نے مذاق میں رضیہ پھنسی غنڈوں میں محاورہ بولا۔ جس کی بعد میں انہوں نے وضاحت کی۔ فرحت عباس شاہ نے کہا کہ میڈیا پالیسی کا پابند ہے جبکہ بلاگر آزاد ہے۔ اردو بلاگر میڈیا کا متبادل بن جائے کیونکہ پاکستان کے لئے جو اردو بلاگر کر سکتا ہے وہ کوئی دوسرا نہیں← مزید پڑھیے
تلاوت کلامِ پاک سے اردو بلاگرز کانفرنس کا آغاز ہوا۔ نقابت کے فرائض مشہور شاعر فرحت عباس شاہ نے ادا کیے۔ سب سے پہلے اردو بلاگر شاکر عزیز کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے بلایا گیا۔ کچھ دوست جو انٹرنیٹ پر بڑے کاٹ دار جملے لکھتے نظر آتے ہیں مگر تعارف کروانے سے ڈر رہے تھے۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں سے لاہور پہنچنے والوں نے میلہ لوٹ لیا۔← مزید پڑھیے