کیا آپ نے کبھی محنتی انسان کو اپنی لگن میں کام کرتے اور حاسد کو جلتے دیکھا ہے؟ محنتی لوگ ہیرے اور حسد کرنے والے کوئلے کی مانند ہیں۔ دنیا کا یہی دستور ہے کہ ہیرا سر کا تاج بنتا ہے اور کوئلہ بھٹی میں جلتا ہے۔ حاسد جل جل کر راکھ تو بن جاتا ہے مگر ہیرا کبھی نہیں بن پاتا۔ کوئلے کی طرح جلنے سے بہتر ہے کہ محنت کر کے ہیرا بنو۔← مزید پڑھیے
اردو بلاگستان میں کوئی سورج کی طرح دھکتے ہوئے چڑھتے ہیں اور کوئی چاند بن کر چمکتے ہیں۔ سورج اور چاند کی وجہ سے ستارے نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔ لوگوں کو چاند کی خواہش ہے مگر مجھے ستارے پسند ہیں۔ قاری زمین کی مانند ہے۔ بے شک سورج، چاند اور ستارے خوبصورت لگتے ہیں مگر یہ سبھی زمین کے محتاج ہیں۔ اگر زمین نہ ہو تو ان کی کوئی وقعت نہیں۔← مزید پڑھیے
ملالہ یوسف زئی کی ڈائری کسی ساتویں جماعت کی گل مکئی نے نہیں بلکہ کسی منجھے لکھاری نے لکھی ہے۔ اس ڈائری میں تعلیم کے لئے آواز بلند کرنے اور طالبان مخالف کچھ ہے ہی نہیں بلکہ کہیں کہیں چند جملوں میں فوج پر تنقید ضرور ہے۔ یہ ڈائری کوئی انوکھا یا اچھوتا کام← مزید پڑھیے
پہاڑوں پر پریوں کی جگہ ڈفریاں ناچنے لگیں۔ جھرنوں نے اپنے حالِ دل سنائے تو خود کلامی کرتے ہوئے خیال آیا کہ پھر میں کیا ہوں۔ درخت خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے تو سوچ راجہ کی آپ بیتی پڑھنے اٹلی پہنچی، تو ساتھ ہی عام بندے کا حال دل سننے خوامخواہ میں جاپان چلی گئی← مزید پڑھیے
پرندے چہچہاتے وادی میں اپنی اڑانیں بھر رہے تھے۔ پرندوں اور راما کی خوبصورت صبح نے خیمے پر دستک دیتے ہوئے کہا اٹھو دیکھو کتنی حسین صبح باہر تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ خیمے کا دروازہ کھولا تو یک دم ٹھنڈی ہوا کا جھونکا روح تک اتر گیا۔ فطرت نے دونوں بازو کھول کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا← مزید پڑھیے