جنگل میں الیکشن ہوئے اور بندر بادشاہ بن گیا۔ ایک دن شیر نے ہرنی کا بچہ پکڑ لیا۔ ہرنی نے بادشاہ بندر کو فریاد کی کہ میرا بچہ چھڑائیے۔ بندر نے اپنی دوڑیں لگا دیں۔ بڑی تیزی سے ایک درخت سے دوسرے پر چھلانگیں لگاتے ہوئے پورے جنگل کا چکر لگایا۔ پھر تھک ہار کر کہنے لگا، میں بہت دوڑا، اب بھی اگر شیر تمہارا بچہ نہ چھوڑے تو بھلا میں کیا کر سکتا ہوں۔ ہمارے حکومتی بندروں کا حال بھی اس بندر جیسا ہے۔ جس سمت میں دوڑنا چاہئے اس طرف نہیں جائیں گے بلکہ فضول دوڑ لگاتے ہوئے ڈبل سواری اور موبائل نیٹ ورک پر پابندی← مزید پڑھیے
پہاڑوں پر پریوں کی جگہ ڈفریاں ناچنے لگیں۔ جھرنوں نے اپنے حالِ دل سنائے تو خود کلامی کرتے ہوئے خیال آیا کہ پھر میں کیا ہوں۔ درخت خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے تو سوچ راجہ کی آپ بیتی پڑھنے اٹلی پہنچی، تو ساتھ ہی عام بندے کا حال دل سننے خوامخواہ میں جاپان چلی گئی← مزید پڑھیے
ہو سکتا آپ لوگوں کو میری ان باتوں پر غصہ آئے لیکن کبھی ہم نے اپنے میڈیا، انقلابیوں اور ایجادیوں پر غور کیا ہے کہ انہوں نے کیا تماشہ لگا رکھا ہے۔ ایجادی جاہل میڈیا کے بل پر عام عوام کو جاہل بنا رہے ہیں۔ اجی میں کیا ہوں، اب تو اچھے اچھوں کی واٹ لگنے والی ہے← مزید پڑھیے
ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور یہی ضرورت چیخ و پکار کر رہی ہے لیکن ہمارے اکثر نوجوانوں نے صرف جنسی تسکین کو ہی ضرورت سمجھا ہوا ہے اور اس ضرورت کے تحت دن بدن ”محبت“ کے نئے سے نئے ماڈل ایجاد کر رہے ہیں۔ جیسے موبائلی محبت، انٹرنیٹی محبت اور فیس بکی محبت وغیرہ← مزید پڑھیے
جہاں جہاں میرے نظریات و سوچ میں مسائل ہیں، آپ ان کی نشاندہی کریں، مجھ سے اختلاف کریں، تنقید کریں، مجھے سمجھائیں، دلائل سے قائل کریں تاکہ میں اپنے نظریات میں بہتری لا سکوں۔ لیکن یہاں بھی ہماری گنگا الٹی ہی بہی۔ پتہ نہیں یار لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ہر تحریر لکھنے والا ان پر حملہ کر رہا ہے← مزید پڑھیے