جھیل کٹورہ ٹریک کے آغاز پر ہی منظرباز نے پہاڑوں کے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ”میخانے کا دروازہ کھول کہ رِند آئے ہیں“۔ پھر ہم خطرناک پتھروں پر بے حال ہوئے چلے جا رہے تھے۔ سچ ہے کہ حُسن کشٹ مانگتا ہے۔ جھیل یونس کے بعد راستے کی خطرناکی دیکھتے ہوئے شاہ رخ صاحبہ نے کہا ”سوچ لو کہ آج مرنا ہے“۔ پھر ایک لڑکی نے ظلم ڈھایا اور ہم نے غصہ کھایا۔ آخر جھیل کٹورہ پہنچ ہی گئے۔ اس مقام کی تاثیر یہ تھی کہ ”تم“ آئے چناب کی صورت۔ خیر جھیل کنارے مسافرِشب سے ماڈلنگ کرائی۔ فوٹوفوٹی جنگ ہوئی، بونے ناچے اور کئی لڑکیوں نے ”کُڑی مارکہ“ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آخر ریل گاڑی چلی اور پھر اچانک حادثہ← مزید پڑھیے
چلیں! آج منظرباز کی ذات کے حوالے سے پردے کے پیچھے جھانکتے ہیں۔ دوستو! سوشل میڈیا پر یہ جو ہنستا کھیلتا اور کئی باتوں سے بے نیاز سا نظر آتا ہے، درحقیقت پسِ پردہ اس کی زندگی میں بھی کئی مسائل اور اُتار چڑھاؤ ہیں۔ لیکن لکھنا پڑھنا، سیروسیاحت اور فوٹوگرافی وغیرہ جیسے مشاغل نے اسے کئی دکھوں سے بچا رکھا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اندر ہی اندر درد سہتا، آنسو پیتا مگر زندگی جیتا ہے اور اس جینے کے لئے سفر کرنا، پہاڑ چڑھنا، بہروپ بنانا، تاک لگانا اور خاک ہونا پڑتا ہے۔ جی ہاں! خاک ہونا پڑتا ہے، کیونکہ ہر خوشی کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے۔ ویسے نوبت لہو اُگلنے تک آنے سے پہلے ہی منظرباز← مزید پڑھیے
یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیرشاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ فوج جیسے تیسے دریائے راوی، چناب اور جہلم عبور کر کے روہتاس پہنچی۔ وہاں انسانی روپ میں چھپے بھیڑیئے لڑکیاں تاڑ رہے تھے۔ قلعے میں ایک دوشیزہ نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے
یوں تو ہم ایک زمانے کو دوست رکھتے ہیں لیکن ابھی ذکر ہے جنابِ شمس، مسٹر بمبوکاٹ اور محترم چندربھاگ کا… اور عکس ساز کا۔ یہ سب منظرباز کے ہمراز ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اشرف المخلوقات کو چھوڑ کر ان سے دوستی کر لی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کو دل کی بات کہتے ڈر لاگے ہے صاحب۔۔۔ چناب کنارے والے نے محبوب نگری میں کہا تھا کہ سب تعبیریں اک خواب کیں… سب پنکھڑیاں اک گلاب کیں… سب کرنیں اک آفتاب کیں… جن میں… ہم کنارے چناب کے… ہم سپوت دوآب کے… ہم شہرِخوباں کے… ہم ارضِ جاناں کے… اور ہم← مزید پڑھیے
ظالموں کو بہت کہا کہ کسی نئی جگہ چلتے ہیں مگر لمبی چوڑی بحث کے بعد ”یک روزہ کشمیر گردی“ کا پروگرام بنا۔ کئی قصبوں اور دیہاتوں سے ہوتے ہوئے کشمیر کے شہر بھمبر میں داخل ہونا تھا۔ وہ اپریل کا ایک خوبصورت دن تھا۔ تھوڑی مسافت طے کرنے کے بعد کشمیر کی سرحد پر سڑک کنارے میز کرسی لگا کر بیٹھی، بیچاری قسم کی پولیس نے ہمارا قافلہ روکا۔ ادھر ”تنچی“ کروا کر منزل کی طرف چل دیئے۔ وادی کشمیر کے خوبصورت سماہنی سیکٹر میں دوستوں کے تماشے اور تصویر زنی← مزید پڑھیے