پہاڑوں پر پریوں کی جگہ ڈفریاں ناچنے لگیں۔ جھرنوں نے اپنے حالِ دل سنائے تو خود کلامی کرتے ہوئے خیال آیا کہ پھر میں کیا ہوں۔ درخت خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے تو سوچ راجہ کی آپ بیتی پڑھنے اٹلی پہنچی، تو ساتھ ہی عام بندے کا حال دل سننے خوامخواہ میں جاپان چلی گئی← مزید پڑھیے
پرندے چہچہاتے وادی میں اپنی اڑانیں بھر رہے تھے۔ پرندوں اور راما کی خوبصورت صبح نے خیمے پر دستک دیتے ہوئے کہا اٹھو دیکھو کتنی حسین صبح باہر تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ خیمے کا دروازہ کھولا تو یک دم ٹھنڈی ہوا کا جھونکا روح تک اتر گیا۔ فطرت نے دونوں بازو کھول کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا← مزید پڑھیے
پانچ سات پریاں، بغیر سر ڈھانپے اور ننگے پاؤں دوڑتیں ہمارے پاس آ کھڑی ہوئیں۔ ایک دفعہ تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس طرح پریوں کا ریوڑ دیکھ کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے اور مجھے لگا کہ یقینا یہ کوئی خواب ہے یا پھر میں کوہ ہمالیہ کی بجائے کوہ قاف پہنچ چکا ہوں← مزید پڑھیے
پانی پتھروں سے ٹکراتا، چھینٹے اڑاتا، بلبلے بناتا، دودھیا رنگت کا جھانسہ دیتے ہوئے دریا میں گرتا۔ دریا بڑی گرمجوشی سے اپنے دونوں بازو کھولتا اور چشموں کو اپنی آغوش میں لے لیتا۔ اگر یہ بھی انسانوں کی طرح ہوتے تو شاید کبھی ایک دوسرے سے نہ ملتے بلکہ ہر کوئی دھرتی کی میخوں کو اکھاڑ کر اپنا اپنا الگ رستہ← مزید پڑھیے
عبدالستار سٹرنگ کا عاشق ہو چکا تھا اور ہم سب نے سرِعام سڑک کنارےاس سفر کا پہلا جام چڑھایا۔ گو کہ یہ میرا پہلا تجربہ نہیں تھا مگر پھر بھی گلے سے گھونٹ گزرتا محسوس ہوتا اور معدے تک پہنچتے ہی ایسا سکون دیتا کہ ہوش خطا ہو جاتے۔ اِدھر تھاکوٹ آیا، اُدھر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریائے سندھ نے ہمارا استقبال کیا← مزید پڑھیے