جوگی و نیم جوگی اور رانجھوں کی مہربانی کہ وہ تشریف لائے اور ہم نے ٹلہ جوگیاں کی مہم سرانجام دی۔ بتاتا چلوں کہ اپنا یار چناب تو سب سے پہلے، اس کے بعد ناران کا لالہ زار، نانگاپربت کا روپل چہرہ اور خاص طور پر ٹلہ جوگیاں کا میری سیاحت میں بہت بڑا کردار ہے۔ چناب کے بعد منظربازی کا اصل جوگ مجھے یہیں سے ملا تھا۔ ٹلہ جوگیاں ہزاروں برسوں کی تاریخ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ گروگورکھ ناتھ سے لے کر باباگرونانک تک، رانجھے سے لے کر علامہ اقبال تک، احمد شاہ ابدالی کے قتل عام سے لے کر تقسیمِ ہند پر اجڑنے تک، اور خزانوں کی تلاش سے لے کر غوری میزائل کے تجربے تک، بہت سی کڑیاں اور سلسلے ٹلہ جوگیاں سے جا ملتے ہیں۔ وارث شاہ کے رانجھے نے بھی یہیں پر کان چھیدوائے اور جوگی بنا اور ہم نے بھی← مزید پڑھیے
اس ”ہارن باز“ ہجوم کے چکر میں حالت ایسی ہو گئی کہ ہمت ہارنے لگا۔ آخر کار آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور میں گھٹنوں کے بل گرا۔ ساتھ ہی اک خیال آیا کہ یہ شہ سوار میدانِ جنگ میں گر رہا ہے یا پھر طفل گھٹنوں کے بل ہو رہا ہے؟ گویا میں خود پر ہنسا۔ پھر ایک آواز سنائی دی۔ ہاتھ میں گلاس پکڑے وہ میرے سامنے تھی۔ گلاس میں پانی تھا لیکن اگر زہر بھی ہوتا تو چپکے سے میرے خلق میں اتر جاتا۔ اس چُلو بھر زندگی میں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہ← مزید پڑھیے
جہاں عوام کو آسانی سے خوشی نصیب نہیں ہوتی، وہاں پر ہمارا کیا جاتا ہے کہ اگر ہم دکھ کا نام خوشی رکھ لیں۔ جہاں عوام کو اتنا بھی ہوش نہیں کہ انہیں بجلی کے بل میں تکنیکی مار اور دھوکے دے کر کیسے کیسے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ جہاں حکومت اور ادارے مل بانٹ کر کھا رہے ہیں۔ جہاں ظلمت کی تاریک رات ہو، وہاں پر اگر کوئی کمینی سی خوشیاں منا بھی لے تو کسی کے باپ کا کیا جاتا ہے؟ خیر یہ بات چھوڑیں، آئیے آپ کو ایک ناچتی چالاکی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ← مزید پڑھیے
ہم مقررہ وقت پر چچا مستنصر حسین تارڑ کے گھر پہنچے۔ انہوں نے ہمیں اپنے سٹڈی روم میں بیٹھایا۔ وہاں بہت ساری کتابیں اور دیواروں پر پینٹگز لگی تھیں۔ اردو بولنے پر انہوں نے کہا کہ پنجابی ہو تو پھر پنجابی میں بات کرو۔ زیادہ تر باتیں زبان، ملکی حالات، سیاحت اور تارڑ صاحب کی کتابوں پر ہوئیں۔ ہم سوال کرتے اور وہ اس پر تفصیلی بات کرتے۔ بڑے کھلے ڈلے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ دو اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے بڑی اہم باتیں سناتے ہوئے کہا← مزید پڑھیے
تب کمیوں کی خوبصورت لڑکی چوہدری کی ہوس کا شکار ہو جاتی۔ اب ترقی یافتہ ممالک خود کو چوہدری اور مسلمانوں کو کمی کمین سمجھتے ہیں جبھی تو ان کی اتنی جرات کہ ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی جیسی دہشت گردی کرتے ہیں۔ اوپر سے انسانی حقوق کے یہ نام نہاد علمبردار اسے آزادی اظہار رائے کہتے ہیں← مزید پڑھیے