ایک تصویر ہزار الفاظ سے بھی بھاری ہوتی ہے۔ مگر المیہ تو یہ ہے کہ دنیا اسی بھار کے چکروں میں ہلکی ہو رہی ہے۔ اگر ایک تصویر ہزار الفاظ سے بھاری تو ایک جعلی تصویر ہزاروں الفاظ کو ہلکا بھی کر دیتی ہے۔ چوری شدہ یا جعلی تصویروں کے ذریعے تصویری چونا لگانے اور فوٹوگرافرز کو دیوار سے لگانے کا عمل جاری و ساری ہے۔ بتاتا چلوں کہ مجھے کسی پر کوئی اعتراض نہیں۔ برفوں سے صحرائی اونٹ گزاریں یا کہیں خلائی مخلوق اتاریں، میری بلا سے۔ مجھے تو بھان متی فوٹوگرافر صاحب اور اس چمتکاری تصویر پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ جس تصویر نے فوٹوگرافی کا بلاتکار کیا اور اچھے اچھے فوٹوگرافرز کی← مزید پڑھیے
مجھے ایک رات حسینہ کے ذاتی کمرے میں گزارنے اور اسے چھونے کا موقع بھی ملا۔ وہ ایک یادگار اور لاجواب رات تھی۔ مگر گھپ اندھیرے میں حسینہ نے مجھے تگنی کا ناچ نچایا۔ اور پھر میرا کھڑکی سے چپکے چپکے فوٹوگرافی کرنا ایسا ہی تھا کہ جیسے امریکن فلم ”ورٹیکل لمٹ“ کا ہیرو ہمالیہ کے دوردراز برف پوش پہاڑوں میں برفانی چیتوں کی فوٹوگرافی کر رہا ہوتا ہے۔ بہرحال حسینہ کا ماضی بہت دردناک ہے۔ وہ کیا ہے کہ جب یہ بہت چھوٹی تھی تو ایک دفعہ اپنے بھائی اور ماں کے ساتھ دریا عبور کر رہی تھی۔ دونوں بہن بھائی لہروں کی تاب نہ لا سکے اور پانی میں بہہ کر ماں سے بچھڑ گئے اور حسینہ ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ← مزید پڑھیے
جھیل کٹورہ ٹریک کے آغاز پر ہی منظرباز نے پہاڑوں کے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ”میخانے کا دروازہ کھول کہ رِند آئے ہیں“۔ پھر ہم خطرناک پتھروں پر بے حال ہوئے چلے جا رہے تھے۔ سچ ہے کہ حُسن کشٹ مانگتا ہے۔ جھیل یونس کے بعد راستے کی خطرناکی دیکھتے ہوئے شاہ رخ صاحبہ نے کہا ”سوچ لو کہ آج مرنا ہے“۔ پھر ایک لڑکی نے ظلم ڈھایا اور ہم نے غصہ کھایا۔ آخر جھیل کٹورہ پہنچ ہی گئے۔ اس مقام کی تاثیر یہ تھی کہ ”تم“ آئے چناب کی صورت۔ خیر جھیل کنارے مسافرِشب سے ماڈلنگ کرائی۔ فوٹوفوٹی جنگ ہوئی، بونے ناچے اور کئی لڑکیوں نے ”کُڑی مارکہ“ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آخر ریل گاڑی چلی اور پھر اچانک حادثہ← مزید پڑھیے
خواتین کو دیکھ کر ”خواتینے“ بھی ایسے تیار ہوئے جیسے مقابلہ حسن میں جانا ہو، حالانکہ ہم پہاڑوں کو اپنا آپ دکھانے نہیں بلکہ انہیں دیکھنے جاتے ہیں۔ خیر دس خواتین، سترہ مرد اور ایک مسافرِشب، چند گدھے اور ایک منظرباز ٹریک پر نکلے۔ پہلے ایک چشمہ، پھر جنگل، پھر چراگاہ اور پھر جہازبانڈہ آ گیا۔ کیا واقعی؟ سچی؟ نہ سائیں نہ۔ ایسے نہیں۔ ناریل پھوڑا نہ چوگ بھرا۔ کوئی موم بتی جلائی نہ چادر چڑھائی۔ ایسے تو نہیں ہوتا۔ جہاز بانڈہ ہے کوئی مذاق نہیں۔ بہرحال ٹریک کی مشکلات، فطرت کا انتقام، راجہ تاج محمد کا بندوق کے زور پر خوش آمدید کہنا، رات کی فوٹوگرافی، الاؤ کے گرد خواتین و حضرات کے گانے اور پائل کی جھنکار← مزید پڑھیے
پتہ نہیں سفر خوش نصیب تھا یا پھر ہم۔ وہ کیا ہے کہ نگینے جمع ہوتے جا رہے تھے اور مجھے لگا کہ محسن اتنے لکھاریوں کو اکٹھا کر کے ایک ساتھ سمندر برد کرنا اور جان چھڑانا چاہتا ہے۔ ویسے امیرِکارواں نے لیلیٰ مجنوں سے بھی بہت زیادتی کی۔ تتربتر مسافروں کو آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بنا کر دو گاڑیوں میں سوار کر دیا۔ میری تو تصویرِکائنات ہی بے رنگ ہو گئی، مگر باقی ایسے چپ تھے جیسے سب کی ناراض ہو کر چلی گئی ہو۔ گاڑی کی وجہ سے میرے سر میں درد ہونے لگا، جبکہ بائیک پر ایسا نہیں ہوتا، البتہ تب کہیں اور درد ہوتا ہے۔ صدا آئی کہ سو جاؤ! ابھی تو بلندیوں پر ’نچ کے یار منانا‘ ہے۔ یونس ’بےبی ڈول‘ کو دیکھنے اور احسن بھائی← مزید پڑھیے