شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں، اس کے ایک سرے پر پاکستان کا شہر حسن ابدال ہے تو دوسرے سرے پر چین کا شہر کاشغر ہے۔ یہ عظیم شاہراہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔ میں شاہراہ قراقرم پر پہلے بھی کئی دفعہ تھوڑا تھوڑا سفر کر چکا ہوں مگر اس دفعہ زیادہ خوشی ہو رہی ہے کیونکہ اب ایک لمبا سفر کرنے جا رہا ہوں← مزید پڑھیے
سو چہروں والے قاتل پہاڑ کے دامن میں ہر سال جانے کا سوچتے، پروگرام بننا شروع ہوتا اور مکمل ہونے سے پہلے ہی کوئی دوست کہتا کہ دن بہت زیادہ لگ جائیں گے اور کاروبار متاثر ہو گا، کوئی لمبے سفر سے ڈر جاتا۔ کاروبار متاثر اور لمبا سفر تو صرف بہانا ہوتا، حقیقت تو یہ تھی کہ ہر کسی کو ”بیوی“ سے اجازت نہ ملتی۔ ہمارا کیا ہے، دوست ساتھ ہوں تو لمبے سے لمبا سفر بھی چھوٹا لگتا ہے اور موتی چور کا لڈو کھانے کا ”ارمان“ خیر سے ابھی تک پورا ہی نہیں ہوا۔ بہرحال جیسے تیسے کر کے اب کی بار سب نکل ہی پڑے← مزید پڑھیے
برف اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ناران سے جھیل سیف الملوک پر جانے کے لئے جیپ والا رستہ بند تھا اس لئے ہمیں مجبوری میں جھیل کے لئے ٹریکنگ ہی کرنی پڑی۔ مزید تفصیل جاننے اور دیکھنے کے لئے تصاویر اور← مزید پڑھیے
ناران سے ہم بٹہ کنڈی پہنچے اور وہاں فیاض کے گھر گاڑی کھڑی کر کے لالہ زار کے لئے ٹریکنگ شروع کی۔ راستے میں ہلکی پھلکی برفباری بھی ہوئی۔ جب لالہ زار پہنچے تو بارش ہو رہی تھی۔ جب بارش رکی تو ہر طرف نظارے ہی نظارے تھے۔ رات لالہ زار ہی رکے اور پھر اگلے دن لالہ زار کا جوبن اپنے عروج پر تھا۔ مزید تفصیل جاننے اور دیکھنے کے لئے تصاویر اور← مزید پڑھیے
دو جون 2010ء کی صبح ہم گجرات سے ناراں، کاغاں کے لئے نکلے۔ سارا سفر گپ شپ کرتے ہوئے گذارا۔ یوں تو دل کر رہا ہے کہ سارے سفر اور سیروتفریح کے لمحات کو قلمبند کروں لیکن وقت ساتھ نہیں دے رہا۔ جب تک کچھ لکھتا ہوں یا نہیں لکھتا تب تک آپ اگر دیکھنا پسند کریں تو پیارے پاکستان کے پیارے علاقے کی تصاویر دیکھیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ہر تصویر کے ساتھ جگہ کا نام اور وقت لکھ سکوں۔ پہلی تصویر ناران سے آگے بٹہ کنڈی اور وہاں سے پہاڑ کے اوپر ایک مقام ”لالہ زار“ کی ہے۔ لالہ زار میں یہ چلو بھر پانی تھا :-) لیکن میرے دوست سلیم نے فوٹوگرافی کا ایسا فن دکھایا کہ← مزید پڑھیے