سنو…روح بنجر ہے اور پیاسا من…کبھی آؤ چناب کی صورت۔ دِیاخلیل صاحبہ کا یہ شعر مجھے بہت پسند ہے۔ یوں محبوب کو چناب کی صورت بلانے کے تو کیا ہی کہنے۔ سن لیا تم نے؟ نہیں سنا تو یہ سنو کہ لمبی چوڑی سیاحتوں، دربدر بھٹک کر، لمبی لمبی تحریروں اور ڈھیروں تصویروں سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں، اس کی ایک جھلک جب میرے سامنے پردۂ سکرین پر چل رہی تھی، تب جھیل کٹورہ کے کنارے محترم شفان حسن نے اور کمراٹ آبشار کے سامنے انم خان صاحبہ نے وہ نایاب لمحات قید کر دیئے۔ تُو اس وقت چناب کی صورت آیا اور سارے منظرنامہ پر چھایا اور دھرتی نے گایا اور عشق نے بلھے کو نچایا اور پھر← مزید پڑھیے
لمبے انتظار کے بعد ایک دن دریائے چناب پر پُل بننا شروع ہوا۔ پل کے حفاظتی بند بنا کر جب کمپنی پل بنانے کے لئے دریا میں اتری تو حکومت بدل گئی۔ درخت کاٹ کر سیمنٹ سریا اُگانے کی قائل حکومت نے آتے ہی اس منصوبے کو منسوخ کر دیا۔ پل کا جو کچھ بنا ہوا تھا وہ ویسا ہی پڑا رہا اور من موجی دریا اسے آہستہ آہستہ بہا لے گیا۔ منصوبے کی فائل سردخانے میں پڑی رہی اور پھر ایک دن ”شریفِ لاہور“ کی میز پر پہنچی۔ یوں دوسری دفعہ اپنی نوعیت کا منفرد پل خشکی پر بننا شروع ہوا۔ بند باندھ کر دریا کو بند کر دیا گیا۔ پانی وسیع رقبے پر پھیل گیا۔ گندم کی تیار فصل برباد ہو گئی۔ اب اگر ہم ڈوبے ہیں تو صنم← مزید پڑھیے
ان سے ملئے! یہ ہیں چند ”نمونے“۔ ایک انٹرویو میں مجھ سے سوال ہوا ”کیا آپ ایک اچھے دوست ہیں؟“ میرا جواب تھا ”یہ تو پتہ نہیں، لیکن میرے دوست بہت اچھے ہیں“۔ بس جی! بعض دفعہ جواب دینے میں انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ ویسے مانتا ہوں کہ جو میری حرکتیں ہیں ان سے دوسرے تنگ آ سکتے ہیں۔ مگر میرے دوست نہیں آتے اور مجھے برداشت کرتے ہیں، نمونے جو ہوئے۔ بس جی! موجیں لگی ہوئی ہیں، گھومتے پھرتے ہیں اور غم چھپائے بیٹھے ہیں۔ ورنہ وقت بدلتا ہے اور لوگ بدلتے ہیں۔ کوئی جیتا ہے، کوئی مرتا ہے۔ سدا وقت ایک سا نہیں رہتا۔ دکھ ہر بندے کی زندگی← مزید پڑھیے
یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیرشاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ فوج جیسے تیسے دریائے راوی، چناب اور جہلم عبور کر کے روہتاس پہنچی۔ وہاں انسانی روپ میں چھپے بھیڑیئے لڑکیاں تاڑ رہے تھے۔ قلعے میں ایک دوشیزہ نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے
یوں تو ہم ایک زمانے کو دوست رکھتے ہیں لیکن ابھی ذکر ہے جنابِ شمس، مسٹر بمبوکاٹ اور محترم چندربھاگ کا… اور عکس ساز کا۔ یہ سب منظرباز کے ہمراز ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ اشرف المخلوقات کو چھوڑ کر ان سے دوستی کر لی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کو دل کی بات کہتے ڈر لاگے ہے صاحب۔۔۔ چناب کنارے والے نے محبوب نگری میں کہا تھا کہ سب تعبیریں اک خواب کیں… سب پنکھڑیاں اک گلاب کیں… سب کرنیں اک آفتاب کیں… جن میں… ہم کنارے چناب کے… ہم سپوت دوآب کے… ہم شہرِخوباں کے… ہم ارضِ جاناں کے… اور ہم← مزید پڑھیے