کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے؟ امید ہے کہ اس فقرے کا مطلب سمجھتے ہی ہوں گے کہ فلمیں یا ڈرامے حقیقت نہیں ہوتے بلکہ کہانی کو دلفریب بنانے کے لئے مصالحہ ڈالا جاتا ہے۔ تخیل کے گھوڑے دوڑا کر تصوراتی اور افسانوی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ اور اگر بات کی جائے ترک ڈرامہ ارطغرل غازی کی تو اس میں بھی حقیقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بس فکشن ہی فکشن ہے۔ لہٰذا اوسط سے بھی نچلے درجے اور کمزور پروڈکشن کے اس ڈرامے کو لے کر کوئی ”ڈرامہ“ لگائیں نہ اسے اسلام و کفر کی جنگ بنائیں اور تاریخی دستاویز تو بالکل بھی نہ سمجھیں۔ بلکہ رومانوی داستان کے حامل اس ڈرامے کی کہانی، ڈائیلاگز اور سینماٹوگرافی کا حال یہ ہے کہ← مزید پڑھیے
ریچھ صاحب نے مسٹر مارموٹ کو تصویر بنانے کا کہا نہ مارموٹ نے ریچھ کو، لیکن لیپرڈ اور عقاب سمیت سبھی ایک دوسرے کی تصویریں بناتے پائے گئے۔ آخر جانور بھی انسان ہوتا ہے۔ خیر مزہ اسی میں ہے کہ کسی سفر پر دو فوٹوگرافر دوست ایک ساتھ ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو اور پورے گروپ میں ایک ہی فوٹوگرافر ہو تو پھر کئی نیم فوٹوگرافر چِکنے اور چکنیاں اس کی مت مار دیتے ہیں۔ باقیوں کی تصاویر بنانے کے ساتھ ساتھ فوٹوگرافر کو اپنی منہ فوٹو بنوانے کے لئے پورا لیکچر دینا پڑتا ہے۔ اس پر کئی لوگ غصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایڈا توں فوٹوگرافر۔ اور بعض صاحبیاں تو اس حد تک غصہ کرتی ہیں کہ← مزید پڑھیے
جنگلی جانور انسان سے ڈرتے ہیں، لیکن جب مدبھیڑ ہو جائے تو وہ انسان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ درندہ تو پھر درندہ ہی ہوتا ہے اور جب وہ اپنی آئی پر آتا ہے تو انسان کو بھاگنے کا موقع نہیں دیتا اور چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ جب ایک دفعہ کوئی درندہ انسانی خون چکھ لے تو پھر وہ آدم خور ہو جاتا ہے اور انسان کو آسان شکار سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم دیوسائی میں ریچھوں کی تلاش کو نکلے، مگر دعائیں بھی کرتے کہ ریچھ مل تو جائے لیکن اس انداز سے کہ ہم اسے دیکھ لیں، تصویریں بنا لیں اور وہ اتنا قریب بھی نہ ہو کہ ہم پر حملہ کر دے۔ آخرکار واقعی ہمارا ریچھ سے سامنا ہو گیا اور پھر ہماری دوڑیں← مزید پڑھیے
تین چار سال پہلے کی بات ہے کہ سعد ملک کے ساتھ لاہور آوارگی ہو رہی تھی۔ میں نے کہا کہ استاد آج لگے ہاتھوں شاہی محلہ ہی دکھا دے۔ اس نے جواب دیا ”کچھ خدا کا خوف کر۔ میں ایسا بندہ نہیں ہوں“۔ تو میرے کونسے ”وانٹڈ“ کے اشتہار لگے ہیں۔ میں بھی ایساویسا نہیں ہوں، مگر آج مجھے شاہی محلہ دیکھنا ہی دیکھنا ہے۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ وہاں کونسی ”شہنشاہیت“ بستی ہے۔ میرے اصرار پر وہ مان گیا اور ہم چل دیئے شاہی محلے۔ وہی محلہ جسے ہیرا منڈی اور بازارِ حُسن بھی کہا جاتا ہے۔ خیر شاہی محلے پہنچتے ہی سڑک کنارے گاڑی پارک کی اور پھر ایک کوٹھے پر پہنچے۔ جہاں طوائفوں کے رقص اور موسیقی← مزید پڑھیے
جو سوتے ہیں، وہ کھوتے ہیں اور آج کل ”کھوتے“ کو تو لوگ کھا جاتے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی فوراً بستر چھوڑا، تیاری کی، فوٹوگرافی کے لئے کیمرا رکھا اور انارکلی کی تلاش میں ہرن مینار چل دیا۔ یہ مینار مغل بادشاہ جہانگیر نے بنوایا تھا۔ وہی جہانگیر جو پہلے شہزادہ سلیم عرف شیخو ہوا کرتا تھا اور جس کی چکربازیوں کے چکر میں بیچاری انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا اور بعد میں خود جناب ”نورالدین“ بن بیٹھے۔ خیر سلیم کو چھوڑو اور انارکلی کی تلاش میں ہرن مینار کا چکر لگاؤ، تالاب میں ڈبکیاں نہ لگاؤ، بس بارہ دری میں چین کی بنسری بجاؤ اور اگر طبیعت زیادہ خراب ہو تو منظرباز کی طرح ایک انارکلی نہیں بلکہ کئی انارکلیوں سے← مزید پڑھیے