نوجوان نے شغل شغل میں نشانہ باندھے(شست لئے) بغیر ہی بس بندوق کی نالی پرندے کی طرف کی اور لبلبی دبا دی۔ کرنی ایسی ہوئی کہ چھرہ پرندے کو لگ گیا اور وہ گر گیا۔ اس کا گرنا تھا کہ نوجوان نے دوست کی طرف فاتحانہ انداز میں دیکھنے کی بجائے بندوق وہیں پھینکی اور پرندے کی طرف دوڑ لگا دی۔ پرندے کو اٹھایا مگر وہ مر چکا تھا۔ حالانکہ یہ تو معمول کی بات تھی مگر اُس روز نوجوان کو ناجانے کیا ہوا۔ اچانک سے قدرت نے اس کے دل و دماغ میں کچھ ایسا اتار دیا کہ دل پر عجیب سا بوجھ پڑنے لگا۔ بس پھر اس واقعہ نے نوجوان شکاری کی ایسی حالت کی کہ آج کل وہ← مزید پڑھیے
ایک وقت تھا کہ لاہور شہر میں درخت کاٹ کر سیمنٹ سریا اُگایا جا رہا تھا اور حکومتِ پنجاب سارے پنجاب کو بھول کر صرف لاہور کو ہی ”لاہور شریف“ بنانے پر لگی ہوئی تھی۔ مگر شاہدرہ ریلوے پھاٹک پر ایک ”فلائی اوور“ بنانے کی زحمت نہ کی گئی۔ جی ٹی روڈ جیسی اہم سڑک کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ پتہ نہیں جی ٹی روڈ اور خاص طور پر گجراتیوں سے کس چیز کا بدلہ لیا جا رہا تھا۔ خیر خدا خدا کر کے اب لاہور سیالکوٹ موٹروے بن چکی ہے اور پوچھنا یہ تھا کہ عوام کے پیسے سے بننے والے اس تحفہ کے لئے شکریہ کس کا ادا کرنا ہے؟ آیا کسی ٹھیکیدار کا یا پھر نون شون عین غین کا، یا پھر← مزید پڑھیے
ساڑھے چھ ہزار سال بعد جب دوبارہ نیو وائز نامی دم دار ستارہ سورج کا چکر لگانے آیا تو خلائی سپر کمپیوٹر نے ایک سائی بورگ نما انسان کو کہا کہ ابھی یعنی 8520 عیسوی میں دریائے چناب کنارے جس جگہ تم بیٹھے ہو، ساڑھے چھ ہزار سال پہلے 2020ء میں بالکل اسی جگہ سے ایک پاگل نے اسی دم دار ستارے کی تصویر بنائی تھی۔ انسان نے کہا کہ کیا تمہارے ریکارڈ میں وہ تصویر ہے؟ ”گھیم گھیم“ اور پھر کمپیوٹر نے یہ والی تصویر اسے دیکھا دی۔ اس پر انسان بولا کہ مجھے اس تصویر کی مکمل معلومات دو۔ یوں کمپیوٹر کہنے لگا کہ ہزاروں سال پہلے یہیں قریب ہی کچھ ایسے دوست رہا کرتے تھے کہ← مزید پڑھیے
جب سے باقاعدہ فوٹوگرافی شروع کی ہے، ان ساڑھے چار پانچ سال میں میری بنائی قدرتی مناظر کی کئی تصاویر اپنے اپنے لحاظ سے سراہی گئیں اور آپ لوگوں کی بے پناہ محبتوں نے انہیں پذیرائی بخشی۔ اسی طرح حال ہی میں یعنی وبا کے دنوں میں اپنے گھر کی چھت سے شمال کی اور نظر آنے والے پیرپنجال سلسلہ کے برف پوش پہاڑوں کی تصویر بنائی۔ اسے بھی آپ لوگوں نے ایسی پذیرائی بخشی کہ دل خوش ہو گیا۔ لہٰذا اس تصویر کا فل ورژن آپ کی محبتوں کے نام۔۔۔ ویسے جہاں یہ تصویر سراہی گئی وہیں پر بہت سارے لوگوں نے اس تصویر کے ساتھ کچھ ایسا کیا کہ← مزید پڑھیے
یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیرشاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ فوج جیسے تیسے دریائے راوی، چناب اور جہلم عبور کر کے روہتاس پہنچی۔ وہاں انسانی روپ میں چھپے بھیڑیئے لڑکیاں تاڑ رہے تھے۔ قلعے میں ایک دوشیزہ نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے