ظالموں کو بہت کہا کہ کسی نئی جگہ چلتے ہیں مگر لمبی چوڑی بحث کے بعد ”یک روزہ کشمیر گردی“ کا پروگرام بنا۔ کئی قصبوں اور دیہاتوں سے ہوتے ہوئے کشمیر کے شہر بھمبر میں داخل ہونا تھا۔ وہ اپریل کا ایک خوبصورت دن تھا۔ تھوڑی مسافت طے کرنے کے بعد کشمیر کی سرحد پر سڑک کنارے میز کرسی لگا کر بیٹھی، بیچاری قسم کی پولیس نے ہمارا قافلہ روکا۔ ادھر ”تنچی“ کروا کر منزل کی طرف چل دیئے۔ وادی کشمیر کے خوبصورت سماہنی سیکٹر میں دوستوں کے تماشے اور تصویر زنی← مزید پڑھیے
محترم وزیر اعلیٰ لاہور! آپ کا اقبال ہمالیہ سے بھی بلند ہو۔ یوں تو آپ کا کوئی ثانی نہیں لیکن آپ کی وہ انگلی جس سے آپ انگلی کرتے، معذرت جناب، غلطی ہو گئی، دراصل میری مراد یہ تھی کہ آپ کی انگشتِ حکمیہ نے انتخابی مہم میں کیا خوب جوش دکھائے۔ اسی نے مائیک توڑے اور دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ پھر زرداری کو کب سڑکوں پر گھسیٹ رہے ہیں؟ بڑے بھائی صاحب تو بس جوش خطابت میں آپ کو نفسیاتی کہہ گئے جبکہ آپ تو شیر ہیں، بس دُم کی کمی ہے۔← مزید پڑھیے
چھوڑ یار زیادہ حساس نہ بن۔ لیکن بلال ذرا سوچ! سولہ معصوم بچے۔۔۔ خدا کے واسطے مجھے سولہ بچے بھولنے دو۔ نہیں تو مجھے تڑپتی اور دھاڑیں مار کر روتی مائیں یاد آتی ہیں۔ سولہ بچے۔۔۔ مجھے وہ آگ کے شعلے یاد آتے ہیں اور ان شعلوں میں دم توڑتے۔۔۔ سوچنے پر مجبور نہ کرو کیونکہ اس طرح بے شمار دردناک لمحے یاد آئیں گے جبکہ ہمارا تعلق تو بھول جانے والی قوم سے ہے۔← مزید پڑھیے
شفاف الیکشن کا نعرہ لگانے والوں کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ زید اور اس جیسے کئی لوگوں کے ووٹ ایسے دیہاتوں میں بنے جن کا نام و نشان تک نہیں۔ پھر بھی زید نے ووٹ کاسٹ کرنے کی ضد کی تو دھمکی ملی۔ زید کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اپنے خاندان کے ساتھ لمبی مسافت کے بعد ووٹ دینے آیا زید کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ پڑھیے گھوسٹ ویلیج کی دلچسپ کہانی← مزید پڑھیے
ہم دونوں چناب کنارے ملے اور لاہور روانہ ہو گئے۔ امید تھی کہ لاہوری اردو بلاگر ہمیں راوی پل پر خوش آمدید کہیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ زندہ دلان لاہور اپنی زندگیوں میں ہی مصروف رہے۔ ہم پہلی اردو بلاگرز کانفرنس کے کام کاج کے سلسلے میں رات سات بجے کے قریب لاہور پہنچے← مزید پڑھیے