پھل موسم دا تے گل ویلے دی
بالائی پہاڑوں پر برف پڑنے کی وجہ سے ٹھنڈ تھی مگر ارمان بہت گرم تھے۔ لہٰذا ہم دریائے کنہار کنارے جا بیٹھے۔ ہمارے پاس آم تھے اور عام تھے۔ بابا غالب کی روح یقیناً خوش ہوئی ہو گی۔ آم نکالے، دھوئے، کوئی چھری کانٹے سے لیس ہوا تو کسی نے ”امب چوپنے“ کی راہ پکڑی۔ مگر یقین کریں ذرا سواد نہ آیا۔ تبھی ہم نے جانا کہ ”پھل موسم دا تے گل ویلے دی ای چنگی ہوندی اے“۔ کیا آپ نے وہ گانا سنا ہے ”میں امب چوپن لئی گئی تے باغ وچ پھڑی گئی“۔ یوں پھڑے(پکڑے) جانا تو یقیناً بدنامی اور شرمندگی والی بات ہے مگر سارا چکر دل کے سہانے موسم کے مطابق باغ میں جانے کا ہے۔ اور اگر بے موسمی جاتی اور پھڑی جاتی اور کوئی اسے گرم دیکھ کر← مزید پڑھیے