حرارت زندگی ہے مگر حرارت کی بے احتیاطی موت ہے۔ خود سوچیں! اس معاشرے کا کیا ہو گا، جہاں احتیاط کو بزدلی اور بیوقوفی کو بہادری سمجھا جاتا ہو۔ خیر کوئی جو بھی سمجھے، ہمارا کام ہے کہہ دینا۔ مثلاً ایک دفعہ دور دراز پہاڑوں میں کیمپ سائیٹ پر ایک بندے کو چھوٹے سے خیمے کے اندر چولہا جلائے دیکھا تو اسے منع کیا۔ سیدھی سی بات تھی مگر وہ آگے سے اپنے دلائل دینے لگا کہ کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں نے تنگ آ کر کہا، بھائی ہمیں بتا دو کہ جب تمہیں آگ لگے تو آیا جلتے ہوئے کو اٹھا کر نیچے کھائی میں بہتے دریا میں پھینک دیں یا پھر جب تم راکھ بن جاؤ تو تب تمہیں دریا میں بہائیں۔ اور پھر ہوا بھی یوں کہ← مزید پڑھیے
ہم مقررہ وقت پر چچا مستنصر حسین تارڑ کے گھر پہنچے۔ انہوں نے ہمیں اپنے سٹڈی روم میں بیٹھایا۔ وہاں بہت ساری کتابیں اور دیواروں پر پینٹگز لگی تھیں۔ اردو بولنے پر انہوں نے کہا کہ پنجابی ہو تو پھر پنجابی میں بات کرو۔ زیادہ تر باتیں زبان، ملکی حالات، سیاحت اور تارڑ صاحب کی کتابوں پر ہوئیں۔ ہم سوال کرتے اور وہ اس پر تفصیلی بات کرتے۔ بڑے کھلے ڈلے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ دو اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے بڑی اہم باتیں سناتے ہوئے کہا← مزید پڑھیے
پہاڑوں پر پریوں کی جگہ ڈفریاں ناچنے لگیں۔ جھرنوں نے اپنے حالِ دل سنائے تو خود کلامی کرتے ہوئے خیال آیا کہ پھر میں کیا ہوں۔ درخت خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے تو سوچ راجہ کی آپ بیتی پڑھنے اٹلی پہنچی، تو ساتھ ہی عام بندے کا حال دل سننے خوامخواہ میں جاپان چلی گئی← مزید پڑھیے
ہو سکتا آپ لوگوں کو میری ان باتوں پر غصہ آئے لیکن کبھی ہم نے اپنے میڈیا، انقلابیوں اور ایجادیوں پر غور کیا ہے کہ انہوں نے کیا تماشہ لگا رکھا ہے۔ ایجادی جاہل میڈیا کے بل پر عام عوام کو جاہل بنا رہے ہیں۔ اجی میں کیا ہوں، اب تو اچھے اچھوں کی واٹ لگنے والی ہے← مزید پڑھیے