او خدا کے بندو! تمہارے پاس پابندی لگا دو، روک دو، ٹھوک دو اور پھٹ جاؤ کے علاوہ کیا کوئی بات نہیں؟ مسائل کا کیا دوسرا کوئی حل نہیں؟ کبھی سوچا کہ تم لوگوں نے راہ چلتے کی پابندیاں لگا لگا کر معاشرے کو چڑچڑا کر چھوڑا ہے۔ لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔۔۔ خیر تمہارا بھی قصور نہیں، تمہیں پٹی ہی یہی پڑھائی گئی۔۔۔ بہرحال کبھی تھوڑے ٹھنڈے دماغ سے سوچنا کہ ہر جگہ قانون کا مطلب پابندیاں لگانا نہیں ہوتا بلکہ مسائل کا بہتر سے بہتر حل اور چیزوں کو ”چینلائز“ کرنا ہوتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ جیسے دریاؤں کے آگے بند باندھ کر انہیں روکا نہیں جا سکتا، ایسے ہی انسانی خواہش کے آگے← مزید پڑھیے
سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر کوئی اپنی بات آسانی سے کہہ سکتا ہے۔ دنیا نے اس اظہار و گفتار کی آزادی کے لئے بڑے پاپڑ بیلے ہیں۔ اب جا کر تھوڑی بہت آزادی ملی ہے۔ لیکن ہماری اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ درحقیقت آزادی اظہار ہے کیا؟ یہاں تو کئی لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے، تذلیل و بدنام کرنے اور تہمت لگانے کے بعد کہتے ہیں کہ اجی ہم تو تنقید کر رہے تھے اور ہمیں اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا سوشل اور روایتی میڈیا← مزید پڑھیے
جب عمار اور شاکر نے کہا تو میں بلاگ کے متعلق سوچنے لگا۔ آخر 10 جون 2008ء کو اپنی پہلی تحریر شائع کی۔ بلاگ لکھتے پانچ سال ہو گئے ہیں اور یہ گھاٹے کا سودا نہیں رہا۔ گو کہ کئی لوگوں نے رسوا کرنے کی کوشش کی مگر اللہ نے مدد فرمائی اور عزت دی۔ یار لوگو! کچھ خیال کیا کرو۔ آخر ”گھوڑا“ بھی انسان ہے اور اس کا بھی دل دکھتا ہے۔ یہ کوئی فرشتہ نہیں، اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے۔← مزید پڑھیے
ایسا معلوم ہوتا جیسے کوئی منتر پڑھتے ہوئے گاڑی پر جادو کر رہا ہے۔ جادوائی عمل دیکھنے کے بعد ہم کچھ کھانے چلے گئے۔ اس کے بعد راما کا سفر شروع ہوا اور بھول بھلیوں میں کھو گئے اور دو دوست ایک گھر سے رستہ پتہ کرنے چلے گئے۔ اس طرح رنگین انداز میں رستہ معلوم ہونے پر میں نے آہ بھری کہ کاش میں خود جاتا← مزید پڑھیے