پچھلے دنوں دیکھا کہ بلاگستان ”افسانہ افسانی“ ہوا پڑا تھا۔ اپنے عمر بنگش، ریاض شاہد، علی حسان اور خرم ابن شبیر کی کیا ہی بات ہے۔ بڑے لوگ، بڑی باتیں۔ بھلا کسی کی کیا مجال کہ انہیں کچھ کہے۔ اس سب کے بعد بھی ہمارا قلم حرکت میں نہ آئے، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری سوئی ہوئی حس چھلانگ مار کر اٹھی۔ یوں برگر تو برگر، بریانی بھی ہم پر ہنسی۔ اسی اثنا میں ہماری ملاقات اشفاق احمد، سعادت حسن منٹو، ابن انشاء، ساغر صدیق، حکیم ناصر اور ممتاز مفتی صاحب سے ہوئی اور ہماری پوٹلی← مزید پڑھیے
تب کمیوں کی خوبصورت لڑکی چوہدری کی ہوس کا شکار ہو جاتی۔ اب ترقی یافتہ ممالک خود کو چوہدری اور مسلمانوں کو کمی کمین سمجھتے ہیں جبھی تو ان کی اتنی جرات کہ ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی جیسی دہشت گردی کرتے ہیں۔ اوپر سے انسانی حقوق کے یہ نام نہاد علمبردار اسے آزادی اظہار رائے کہتے ہیں← مزید پڑھیے
آپ کے پاس وقت ہے تو پڑھیے اور سوچیئے کہ اردو کے ان رضاکاروں کو کیا ملا؟ کئی تحاریر لکھیں مگر شائع نہیں کیں، لگتا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ شہرت کے بھوکے ہیں۔ اب بات برداشت سے باہر ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات دل پر لے کر اردو اور بلاگنگ سے کنارہ کشی کر جاؤں← مزید پڑھیے