پتہ نہیں سفر خوش نصیب تھا یا پھر ہم۔ وہ کیا ہے کہ نگینے جمع ہوتے جا رہے تھے اور مجھے لگا کہ محسن اتنے لکھاریوں کو اکٹھا کر کے ایک ساتھ سمندر برد کرنا اور جان چھڑانا چاہتا ہے۔ ویسے امیرِکارواں نے لیلیٰ مجنوں سے بھی بہت زیادتی کی۔ تتربتر مسافروں کو آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بنا کر دو گاڑیوں میں سوار کر دیا۔ میری تو تصویرِکائنات ہی بے رنگ ہو گئی، مگر باقی ایسے چپ تھے جیسے سب کی ناراض ہو کر چلی گئی ہو۔ گاڑی کی وجہ سے میرے سر میں درد ہونے لگا، جبکہ بائیک پر ایسا نہیں ہوتا، البتہ تب کہیں اور درد ہوتا ہے۔ صدا آئی کہ سو جاؤ! ابھی تو بلندیوں پر ’نچ کے یار منانا‘ ہے۔ یونس ’بےبی ڈول‘ کو دیکھنے اور احسن بھائی← مزید پڑھیے
یہ تب کی بات ہے جب ہمیشہ کی طرح وطنِ عزیز تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا تھا اور انسانیت خطرے میں تھی۔ یہ بات ہے اکیسویں صدی کے بالغ ہونے کی یعنی جب وہ اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور گاتی پھر رہی تھی ”سوہنیا… میں ہو گئی اٹھرہ سال کی“۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتوار کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیرشاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ فوج جیسے تیسے دریائے راوی، چناب اور جہلم عبور کر کے روہتاس پہنچی۔ وہاں انسانی روپ میں چھپے بھیڑیئے لڑکیاں تاڑ رہے تھے۔ قلعے میں ایک دوشیزہ نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے
پچھلے دنوں ہمارا ایک دوست مظلوموں کی صف میں کھڑا ہو گیا ہے۔ بیچارہ ایک مصیبت سے نکل کر دوسری میں چلا گیا ہے۔ اب ہمیں اپنے ایک نکمے مگر کماؤ، ویب ڈویلپر، بلاگر، لکھاری اور سیاح دوست کی شادی کے لئے ”سیاہ“ لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ شرائط صرف دو ہیں۔ ایک یہ کہ لڑکی پہلوان ہو، تاکہ ہمارے دوست کو سیاحت سے باز رکھ کر گھر باندھے رکھے۔ دوسری شرط ہے کہ لڑکی کو اردو آتی ہو، تاکہ ہمارے دوست کی تحاریر پڑھے۔ ورنہ اسے کسی نے پڑھنا تو ہے نہیں۔ مزید← مزید پڑھیے
پاکستان کی تلاش میں نکل رہا ہوں۔ اس سفر میں لاہور، ملتان، بہاولپور، چولستان، رحیم یارخان اور سکھر کے راستے کراچی تک جانے کا ارادہ ہے۔ سفر کے دوران مختلف مقامات بھی دیکھوں گا، پھر سمندر کی بے مہار لہروں کو چھونے کے بعد اگر سب اچھا رہا تو کوئٹہ اور اس کے بعد پربت کی طرف سفر میں پشاور اور دیگر شمالی علاقہ جات۔ مزید اس سفر کے دوران انٹرنیٹی اور بلاگر دوستوں سے بھی ملاقات ہو گی۔← مزید پڑھیے
اردو بلاگرز کانفرنس کے چند شرکاء سیروسیاحت کے بعد ہوٹل واپس لوٹے۔ ہوٹل پہنچ کر دوست احباب گپ شپ میں مصروف ہو گئے اور میں چپ چاپ ایک نہایت ہی اہم کام کے لئے چلا گیا۔ اب کانفرنس کے بعد یار لوگ تو کانسپیریسی تھیوریز کی ہنڈیا پکانے میں مصروف ہیں۔ اگر یہ کانفرنس میں ہوتے تو انہیں← مزید پڑھیے