محبت کے ساتھ، خلوص کے ساتھ، جناب فلاں صاحب کے لئے، ٹھپ دستخط۔۔۔ کچھ یوں مجھ جیسے عام قارئین کے لئے اکثر بڑے لکھاری اپنی کتاب دستخط کرتے ہیں۔ مگر میری لائبریری میں ایک کتاب سوچ زار ایسی بھی ہے کہ جس کی مصنفہ مریم مجید ڈار نے ناچیز کے لئے ایسا لکھا کہ فطرت کے صد رنگ چہرے کو صورتِ عکس قید کرنے والے جوگی ایم بلال ایم کے لیئے۔ ستائیس افسانوں پر مشتمل یہ کتاب منجمد سوچ پر ہتھوڑے چلائے، معاشرتی بگاڑ پر کوڑے برسائے اور معاشرے کو جھنجھوڑے ہی جھنجھوڑے۔ مصنفہ کا بے باک قلم یہاں تک لکھتا ہے کہ← مزید پڑھیے
اگر میں ادیب ہوتا تو یہ سب کسی کہانی یا افسانے کی صورت میں لکھتا۔ پھر ہر کسی کو پڑھتے ہوئے مزا بھی آتا اور میری بات بھی سب تک پہنچ جاتی۔ بہرحال بات یہ ہے کہ سائنس چیزیں بناتی ہے جبکہ ادب انسان کو ”انسان“ بناتا ہے۔ زمین کے گرد گھومتے سٹیلائیٹ کی طرح، ادیب معاشرے کے گرد گھومتا ہے۔ اپنے علم و ہنر کے ذریعے ایسے ایسے تازیانے برساتا ہے کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کو ہی دیکھ لیں۔ ویسے کئی بیچارے لوگوں کا خیال ہے کہ منٹو نے فحش اور جنس نگاری← مزید پڑھیے
پچھلے دنوں دیکھا کہ بلاگستان ”افسانہ افسانی“ ہوا پڑا تھا۔ اپنے عمر بنگش، ریاض شاہد، علی حسان اور خرم ابن شبیر کی کیا ہی بات ہے۔ بڑے لوگ، بڑی باتیں۔ بھلا کسی کی کیا مجال کہ انہیں کچھ کہے۔ اس سب کے بعد بھی ہمارا قلم حرکت میں نہ آئے، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری سوئی ہوئی حس چھلانگ مار کر اٹھی۔ یوں برگر تو برگر، بریانی بھی ہم پر ہنسی۔ اسی اثنا میں ہماری ملاقات اشفاق احمد، سعادت حسن منٹو، ابن انشاء، ساغر صدیق، حکیم ناصر اور ممتاز مفتی صاحب سے ہوئی اور ہماری پوٹلی← مزید پڑھیے