شفاف الیکشن کا نعرہ لگانے والوں کو ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ زید اور اس جیسے کئی لوگوں کے ووٹ ایسے دیہاتوں میں بنے جن کا نام و نشان تک نہیں۔ پھر بھی زید نے ووٹ کاسٹ کرنے کی ضد کی تو دھمکی ملی۔ زید کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اپنے خاندان کے ساتھ لمبی مسافت کے بعد ووٹ دینے آیا زید کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ پڑھیے گھوسٹ ویلیج کی دلچسپ کہانی← مزید پڑھیے
الیکشن مہم عروج پر ہے۔ ٹوٹی سڑکوں پر خوبصورت گاڑیاں دوڑائی جا رہی ہیں۔ اکثر چوہدری، وڈیرے اور سردار پاگل ہو چکے ہیں۔ ”چلو چلی“ کے اسی میلے میں کئی احباب پوچھتے ہیں کہ پھر کس کو ووٹ دینے کا ارادہ ہے؟ میرا جواب ہوتا ہے کہ میں آزاد وطن کا آزاد شہری ہوں اور اپنی مرضی سے اسے ووٹ دوں گا جس نے اس فرسودہ نظام کے خلاف تبدیلی کی صدا لگائی← مزید پڑھیے
وقت آن پہنچا ہے۔ خداؤں کا بازار سج چکا ہے۔ مختلف دکانوں کے تھڑوں پر مختلف خدا موجود ہیں۔ لوگ بولیاں لگا رہے ہیں۔ نعرے لگ رہے ہیں کہ خدا کی قیمت فقط اک ووٹ۔ میں ان خداؤں سے تنگ آ چکا ہوں۔ کوئی تو مجھے بتائے کہ یہاں کوئی انسان بھی ہے یا یہ صرف اور صرف خداؤں کا بازار ہی ہے؟← مزید پڑھیے