اس ”ہارن باز“ ہجوم کے چکر میں حالت ایسی ہو گئی کہ ہمت ہارنے لگا۔ آخر کار آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور میں گھٹنوں کے بل گرا۔ ساتھ ہی اک خیال آیا کہ یہ شہ سوار میدانِ جنگ میں گر رہا ہے یا پھر طفل گھٹنوں کے بل ہو رہا ہے؟ گویا میں خود پر ہنسا۔ پھر ایک آواز سنائی دی۔ ہاتھ میں گلاس پکڑے وہ میرے سامنے تھی۔ گلاس میں پانی تھا لیکن اگر زہر بھی ہوتا تو چپکے سے میرے خلق میں اتر جاتا۔ اس چُلو بھر زندگی میں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہ← مزید پڑھیے
ویسے اگر میں مر گیا تو تم میری خبر تک نہیں لو گے۔ تُو ایک دفعہ مر تو سہی، پھر دیکھ، میں خبر لیتا ہوں یا نہیں؟ پیارے یہاں زندوں کی نہیں بلکہ مردوں کی قدر ہوتی ہے۔ اے میرے دوست! اگر اپنی قدر کرانا چاہتا ہے تو تجھے مرنا پڑے گا اور یہی آج کی دنیا کا دستور ہے۔← مزید پڑھیے
ہم آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے۔ پھر وہ دن آ گیا جب ہمارے لئے واقعی انجمن قاری کے ساتھ بھاگ گئی۔ قاری اب مشہور سٹار بن چکا ہے۔ گاؤں میں آج بھی شاندار محفل تو ہوتی ہے مگر بچہ اِدھر دودھ چھوڑتا ہے تو اُدھر شراب پینا شروع کر دیتا ہے۔ چودھریوں کے اس گاؤں میں بس نام کے چودھری ہیں۔ چاچا فیقو ذرا بھی نہیں بدلا اور آج بھی ویسے کا ویسا ہے۔← مزید پڑھیے
میں خواب ہزار بارہ سے آیا ہوں۔ اگر کوئی ہماری نگری جانا چاہتا ہے تو میری ٹائم مشین میں بیٹھ جائے۔ جلدی کرو مجھے نماز جمعہ مکہ مکرمہ میں ادا کرنی ہے۔ اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟ ابھی تو مجھے مریخ پر فصلیں دیکھنے اور سورج پر توانائی لینے بھی جانا ہے← مزید پڑھیے