راج کماری اوچاں رانی کے شہر دیوگڑھ جانا بھی عجب اتفاق ہی تھا اور پھر بڑی مشکل سے وہاں کے ”دیو“ سے جان چھڑائی۔۔۔ ہوا کچھ یوں کہ جب ہم دیو گڑھ پہنچے تو وہ جگہ قبرستان نما تھی اور وہاں پر مقبروں اور مزاروں کا یوں ہی سمجھیں کہ پورا کمپلکس تھا۔ اور پھر دیو اور جِنوں نے ہمیں گھیر لیا۔ وہ ایسے نذرانہ نکلوانے کے درپے تھے کہ جیسے جگا لینا یا ہفتہ وصولی کرنی ہو۔ بلکہ وہ لوگ تو ایسے پیچھے پڑ گئے جیسے ہماری جان ہی بطور نذرانہ وصول کریں گے۔ اور پھر وہاں ایسی صورتحال بن گئی کہ← مزید پڑھیے
خواتین کو دیکھ کر ”خواتینے“ بھی ایسے تیار ہوئے جیسے مقابلہ حسن میں جانا ہو، حالانکہ ہم پہاڑوں کو اپنا آپ دکھانے نہیں بلکہ انہیں دیکھنے جاتے ہیں۔ خیر دس خواتین، سترہ مرد اور ایک مسافرِشب، چند گدھے اور ایک منظرباز ٹریک پر نکلے۔ پہلے ایک چشمہ، پھر جنگل، پھر چراگاہ اور پھر جہازبانڈہ آ گیا۔ کیا واقعی؟ سچی؟ نہ سائیں نہ۔ ایسے نہیں۔ ناریل پھوڑا نہ چوگ بھرا۔ کوئی موم بتی جلائی نہ چادر چڑھائی۔ ایسے تو نہیں ہوتا۔ جہاز بانڈہ ہے کوئی مذاق نہیں۔ بہرحال ٹریک کی مشکلات، فطرت کا انتقام، راجہ تاج محمد کا بندوق کے زور پر خوش آمدید کہنا، رات کی فوٹوگرافی، الاؤ کے گرد خواتین و حضرات کے گانے اور پائل کی جھنکار← مزید پڑھیے