راما جھیل سے واپس آ کر ہمت ہارے ہوئے تیس مار خاں سیاحوں کو بس توانائی بحال کرنے کی فکر تھی۔ کوئی دکانوں پر انرجی ڈرنک ڈھونڈ رہا تھا تو کوئی اپنے حکیم کو فون کر کے مشورہ کر رہا تھا کہ کیا تھوڑی سی سلاجیت کھا لوں۔ لو کر لو گل، حد ہے یار← مزید پڑھیے
خوفناک، چٹیل، سوکھے، سڑے اور اجڑے پہاڑوں کے اس پار بلندوبالا مقام پر ایک جنت ہے، جسے لوگ پریوں کا دیس کہتے ہیں، جس کا ایک نظارہ کسی حسین و جمیل دوشیزہ کی طرح پہلی نظر میں ہی قتل کر دیتا ہے۔ اس دوشیزہ کے سر پر قاتل پہاڑ تاج بنے پھیلا ہوا ہے← مزید پڑھیے
سو چہروں والے قاتل پہاڑ کے دامن میں ہر سال جانے کا سوچتے، پروگرام بننا شروع ہوتا اور مکمل ہونے سے پہلے ہی کوئی دوست کہتا کہ دن بہت زیادہ لگ جائیں گے اور کاروبار متاثر ہو گا، کوئی لمبے سفر سے ڈر جاتا۔ کاروبار متاثر اور لمبا سفر تو صرف بہانا ہوتا، حقیقت تو یہ تھی کہ ہر کسی کو ”بیوی“ سے اجازت نہ ملتی۔ ہمارا کیا ہے، دوست ساتھ ہوں تو لمبے سے لمبا سفر بھی چھوٹا لگتا ہے اور موتی چور کا لڈو کھانے کا ”ارمان“ خیر سے ابھی تک پورا ہی نہیں ہوا۔ بہرحال جیسے تیسے کر کے اب کی بار سب نکل ہی پڑے← مزید پڑھیے