فوٹوگرافی کے حوالے سے ایک منفرد اعزاز ہمارے شہر جلالپورجٹاں کے پاس ہے۔ دراصل قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے کہ جب شہرِ خوباں ارضِ جاناں میں ایک بچے کو فوٹوگرافی کا شوق ہوا۔ تب اُس نے 13روپے کا کیمرہ خریدا۔ وہ شوقیہ فوٹوگرافی کرتا اور اخبارات کو تصویریں بھیجتا۔ اللہ دا فقیر کہہ گیا ہے کہ ”بات پیسے کی نہیں، بات تو ذہنی سکون کی ہے“۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ سب کچھ لُٹ گیا اور غربت نے ناک میں دم کر دیا۔ فقیر کویت چلا گیا۔ ادھر سخت مزدوری کرتا اور روتا اور دعا کرتا کہ یااللہ فوٹوگرافی کے علاوہ کوئی کام مجھے آتا نہیں، بس تو ہی کوئی راستہ نکال۔ اور پھر رب نے ایسا راستہ نکالا کہ دنیا نے دیکھا← مزید پڑھیے
اردو بلاگرز کانفرنس کے چند شرکاء سیروسیاحت کے بعد ہوٹل واپس لوٹے۔ ہوٹل پہنچ کر دوست احباب گپ شپ میں مصروف ہو گئے اور میں چپ چاپ ایک نہایت ہی اہم کام کے لئے چلا گیا۔ اب کانفرنس کے بعد یار لوگ تو کانسپیریسی تھیوریز کی ہنڈیا پکانے میں مصروف ہیں۔ اگر یہ کانفرنس میں ہوتے تو انہیں← مزید پڑھیے
سو چہروں والے قاتل پہاڑ کے دامن میں ہر سال جانے کا سوچتے، پروگرام بننا شروع ہوتا اور مکمل ہونے سے پہلے ہی کوئی دوست کہتا کہ دن بہت زیادہ لگ جائیں گے اور کاروبار متاثر ہو گا، کوئی لمبے سفر سے ڈر جاتا۔ کاروبار متاثر اور لمبا سفر تو صرف بہانا ہوتا، حقیقت تو یہ تھی کہ ہر کسی کو ”بیوی“ سے اجازت نہ ملتی۔ ہمارا کیا ہے، دوست ساتھ ہوں تو لمبے سے لمبا سفر بھی چھوٹا لگتا ہے اور موتی چور کا لڈو کھانے کا ”ارمان“ خیر سے ابھی تک پورا ہی نہیں ہوا۔ بہرحال جیسے تیسے کر کے اب کی بار سب نکل ہی پڑے← مزید پڑھیے