ظالموں کو بہت کہا کہ کسی نئی جگہ چلتے ہیں مگر لمبی چوڑی بحث کے بعد ”یک روزہ کشمیر گردی“ کا پروگرام بنا۔ کئی قصبوں اور دیہاتوں سے ہوتے ہوئے کشمیر کے شہر بھمبر میں داخل ہونا تھا۔ وہ اپریل کا ایک خوبصورت دن تھا۔ تھوڑی مسافت طے کرنے کے بعد کشمیر کی سرحد پر سڑک کنارے میز کرسی لگا کر بیٹھی، بیچاری قسم کی پولیس نے ہمارا قافلہ روکا۔ ادھر ”تنچی“ کروا کر منزل کی طرف چل دیئے۔ وادی کشمیر کے خوبصورت سماہنی سیکٹر میں دوستوں کے تماشے اور تصویر زنی← مزید پڑھیے
راما جھیل سے واپس آ کر ہمت ہارے ہوئے تیس مار خاں سیاحوں کو بس توانائی بحال کرنے کی فکر تھی۔ کوئی دکانوں پر انرجی ڈرنک ڈھونڈ رہا تھا تو کوئی اپنے حکیم کو فون کر کے مشورہ کر رہا تھا کہ کیا تھوڑی سی سلاجیت کھا لوں۔ لو کر لو گل، حد ہے یار← مزید پڑھیے
برف اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ناران سے جھیل سیف الملوک پر جانے کے لئے جیپ والا رستہ بند تھا اس لئے ہمیں مجبوری میں جھیل کے لئے ٹریکنگ ہی کرنی پڑی۔ مزید تفصیل جاننے اور دیکھنے کے لئے تصاویر اور← مزید پڑھیے
ناران سے ہم بٹہ کنڈی پہنچے اور وہاں فیاض کے گھر گاڑی کھڑی کر کے لالہ زار کے لئے ٹریکنگ شروع کی۔ راستے میں ہلکی پھلکی برفباری بھی ہوئی۔ جب لالہ زار پہنچے تو بارش ہو رہی تھی۔ جب بارش رکی تو ہر طرف نظارے ہی نظارے تھے۔ رات لالہ زار ہی رکے اور پھر اگلے دن لالہ زار کا جوبن اپنے عروج پر تھا۔ مزید تفصیل جاننے اور دیکھنے کے لئے تصاویر اور← مزید پڑھیے
دو جون 2010ء کی صبح ہم گجرات سے ناراں، کاغاں کے لئے نکلے۔ سارا سفر گپ شپ کرتے ہوئے گذارا۔ یوں تو دل کر رہا ہے کہ سارے سفر اور سیروتفریح کے لمحات کو قلمبند کروں لیکن وقت ساتھ نہیں دے رہا۔ جب تک کچھ لکھتا ہوں یا نہیں لکھتا تب تک آپ اگر دیکھنا پسند کریں تو پیارے پاکستان کے پیارے علاقے کی تصاویر دیکھیں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ہر تصویر کے ساتھ جگہ کا نام اور وقت لکھ سکوں۔ پہلی تصویر ناران سے آگے بٹہ کنڈی اور وہاں سے پہاڑ کے اوپر ایک مقام ”لالہ زار“ کی ہے۔ لالہ زار میں یہ چلو بھر پانی تھا :-) لیکن میرے دوست سلیم نے فوٹوگرافی کا ایسا فن دکھایا کہ← مزید پڑھیے