فوٹوگرافی کے حوالے سے ایک منفرد اعزاز ہمارے شہر جلالپورجٹاں کے پاس ہے۔ دراصل قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے کہ جب شہرِ خوباں ارضِ جاناں میں ایک بچے کو فوٹوگرافی کا شوق ہوا۔ تب اُس نے 13روپے کا کیمرہ خریدا۔ وہ شوقیہ فوٹوگرافی کرتا اور اخبارات کو تصویریں بھیجتا۔ اللہ دا فقیر کہہ گیا ہے کہ ”بات پیسے کی نہیں، بات تو ذہنی سکون کی ہے“۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ سب کچھ لُٹ گیا اور غربت نے ناک میں دم کر دیا۔ فقیر کویت چلا گیا۔ ادھر سخت مزدوری کرتا اور روتا اور دعا کرتا کہ یااللہ فوٹوگرافی کے علاوہ کوئی کام مجھے آتا نہیں، بس تو ہی کوئی راستہ نکال۔ اور پھر رب نے ایسا راستہ نکالا کہ دنیا نے دیکھا← مزید پڑھیے
اگر میں ادیب ہوتا تو یہ سب کسی کہانی یا افسانے کی صورت میں لکھتا۔ پھر ہر کسی کو پڑھتے ہوئے مزا بھی آتا اور میری بات بھی سب تک پہنچ جاتی۔ بہرحال بات یہ ہے کہ سائنس چیزیں بناتی ہے جبکہ ادب انسان کو ”انسان“ بناتا ہے۔ زمین کے گرد گھومتے سٹیلائیٹ کی طرح، ادیب معاشرے کے گرد گھومتا ہے۔ اپنے علم و ہنر کے ذریعے ایسے ایسے تازیانے برساتا ہے کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کو ہی دیکھ لیں۔ ویسے کئی بیچارے لوگوں کا خیال ہے کہ منٹو نے فحش اور جنس نگاری← مزید پڑھیے
چوہدری صاحب جب گھر پہنچے تو ان کے بیٹے نے کہا کہ ابو جان! مجھے کھیتی باڑی کے لئے زمین چاہیئے۔ پڑھنے لکھنے والے لاڈلے بچے کی ایسی بات پر باپ حیران ہوا۔ بچے کو لاکھ سمجھایا کہ یہ سخت کام ہے، تم نہیں کر سکو گے۔ باپ دلیلیں دینے لگا لیکن بچے کے بہت زیادہ اصرار پر آخر مان ہی گیا۔ کسانوں کی روایت کے مطابق پو پھوٹنے سے پہلے بچہ زمینوں پر تو پہنچ گیا، مگر جب جون کے سورج کی تپش اسے جھلسانے لگی تو اس کی عقل ٹھکانے آنے لگی۔ پھر ایک دن قدرت کی تخلیق← مزید پڑھیے
پہلے نظام کو سمجھیں پھر خلافت یا جمہوریت کی مخالفت کریں۔ مغرب کے دلدادہ جو بغیر سوچے سمجھے خلافت کی مخالفت کرتے ہیں، پہلے وہ خلافت کو تو سمجھیں۔ معتبر لوگ منتخب کر کے مجلس شوری بناؤ یا قومی اسمبلی، پھر خلیفہ منتخب ہو یا صدر، بات تو ایک ہی ہے۔ بس ہر کسی نے اپنا اپنا نام دے رکھا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے۔← مزید پڑھیے