جھیل کٹورہ ٹریک کے آغاز پر ہی منظرباز نے پہاڑوں کے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ”میخانے کا دروازہ کھول کہ رِند آئے ہیں“۔ پھر ہم خطرناک پتھروں پر بے حال ہوئے چلے جا رہے تھے۔ سچ ہے کہ حُسن کشٹ مانگتا ہے۔ جھیل یونس کے بعد راستے کی خطرناکی دیکھتے ہوئے شاہ رخ صاحبہ نے کہا ”سوچ لو کہ آج مرنا ہے“۔ پھر ایک لڑکی نے ظلم ڈھایا اور ہم نے غصہ کھایا۔ آخر جھیل کٹورہ پہنچ ہی گئے۔ اس مقام کی تاثیر یہ تھی کہ ”تم“ آئے چناب کی صورت۔ خیر جھیل کنارے مسافرِشب سے ماڈلنگ کرائی۔ فوٹوفوٹی جنگ ہوئی، بونے ناچے اور کئی لڑکیوں نے ”کُڑی مارکہ“ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آخر ریل گاڑی چلی اور پھر اچانک حادثہ← مزید پڑھیے
کئی پاکستانی پردیسیوں کو ایک خاص بیماری لگی ہوئی ہے۔ ان کا کام پاکستان کی ہر چیز پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ میں ایسے پردیسیوں کو ”مینگوز“ کہتا ہوں۔ وہ کیا ہے کہ ہمارے مزیدار آموں کی طرح یہ بھی ایکسپورٹ ہو گئے۔ ان کا اصل سواد تو بیگانے لے گئے۔ ہمارے لئے پیچھے بس گھٹلیاں بچی ہیں، جو وقتاً فوقتاً ہمارے سروں پر برستی ہیں۔ ایک دفعہ جب مینگوز نے پاکستان میں رہنے والوں کو جاہل کہا، تو میرا میٹر گھوم گیا۔ پھر میں نے زرمبادلہ، حب الوطنی اور دیگر کئی باتوں پر کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ← مزید پڑھیے
پچھلے دنوں دیکھا کہ بلاگستان ”افسانہ افسانی“ ہوا پڑا تھا۔ اپنے عمر بنگش، ریاض شاہد، علی حسان اور خرم ابن شبیر کی کیا ہی بات ہے۔ بڑے لوگ، بڑی باتیں۔ بھلا کسی کی کیا مجال کہ انہیں کچھ کہے۔ اس سب کے بعد بھی ہمارا قلم حرکت میں نہ آئے، بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری سوئی ہوئی حس چھلانگ مار کر اٹھی۔ یوں برگر تو برگر، بریانی بھی ہم پر ہنسی۔ اسی اثنا میں ہماری ملاقات اشفاق احمد، سعادت حسن منٹو، ابن انشاء، ساغر صدیق، حکیم ناصر اور ممتاز مفتی صاحب سے ہوئی اور ہماری پوٹلی← مزید پڑھیے