ان جوگیوں کی محبت، عزت اور حوصلہ افزائی نے ایک دفعہ تو منظرباز کو تقریباً رُلا ہی دیا تھا۔ ویسے میں جس معاشرے کا حصہ ہوں یہاں باتیں سمجھ آئیں نہ آئیں مگر لوگ فتوے لگائیں، سولی چڑھائیں۔ خیر جو بھی ہو مگر ٹلہ جوگیاں کی مثبت توانائیاں ہم پر مہربان ہیں۔ بے شک ہم جوگی ہوئے نہ رانجھے۔ لیکن جب جب ٹلہ گئے، ہمارے کاسے میں جوگ ضرور ڈالا گیا۔ جام لبریز نہ سہی مگر چند بوندیں ضرور ٹپکائی گئیں۔ چند گتھیاں سلجھیں تو کبھی ہم نے خوف کے اُس پار جھانکا۔ کبھی ٹلہ کی چاندنی رات میں نور کے کرشمے دیکھے تو کبھی غروبِ آفتاب۔ فوٹوگرافی کی اس سے بڑی خوش نصیبی بھلا اور کیا ہو گی کہ← مزید پڑھیے
جھیل کٹورہ ٹریک کے آغاز پر ہی منظرباز نے پہاڑوں کے اوپر دیکھتے ہوئے کہا ”میخانے کا دروازہ کھول کہ رِند آئے ہیں“۔ پھر ہم خطرناک پتھروں پر بے حال ہوئے چلے جا رہے تھے۔ سچ ہے کہ حُسن کشٹ مانگتا ہے۔ جھیل یونس کے بعد راستے کی خطرناکی دیکھتے ہوئے شاہ رخ صاحبہ نے کہا ”سوچ لو کہ آج مرنا ہے“۔ پھر ایک لڑکی نے ظلم ڈھایا اور ہم نے غصہ کھایا۔ آخر جھیل کٹورہ پہنچ ہی گئے۔ اس مقام کی تاثیر یہ تھی کہ ”تم“ آئے چناب کی صورت۔ خیر جھیل کنارے مسافرِشب سے ماڈلنگ کرائی۔ فوٹوفوٹی جنگ ہوئی، بونے ناچے اور کئی لڑکیوں نے ”کُڑی مارکہ“ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آخر ریل گاڑی چلی اور پھر اچانک حادثہ← مزید پڑھیے
اور پھر کہا کہ اب اگر میں خواتین اور باذوق لوگوں کے لئے علیحدہ علیحدہ گاڑی ہونے پر کچھ بولا تو خواتین غصہ کر جائیں گی اور مجھے پھینٹی لگے ہی لگے۔ پہلے ہی میری فرینڈ لسٹ میں لڑکیوں کی شدید لوڈشیڈنگ ہے۔ ویسے بھی جب تصویرِ کائنات ہی بے رنگ ہو گی تو کیا خاک ادب تخلیق ہو گا۔ بہرحال کارواں رانا عثمان کے حیرت کدہ اور محمد احسن کے مےکدہ یعنی جہاز بانڈہ کی اور چلا۔ میں چاند کو دیکھتا مگر مجال ہے جو گاڑی میں پیچھے مڑ کر دیکھا ہو۔ کیونکہ پیچھے لڑکیاں بیٹھی تھیں اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں کتنا شرمیلا ہوں۔ مسافر خراٹے اور گاڑی فراٹے بھر رہی تھی۔ ڈرائیور کی نیند سے ہم شادی شدہ تو کنوارے ہی مرنے← مزید پڑھیے