سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر کوئی اپنی بات آسانی سے کہہ سکتا ہے۔ دنیا نے اس اظہار و گفتار کی آزادی کے لئے بڑے پاپڑ بیلے ہیں۔ اب جا کر تھوڑی بہت آزادی ملی ہے۔ لیکن ہماری اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ درحقیقت آزادی اظہار ہے کیا؟ یہاں تو کئی لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے، تذلیل و بدنام کرنے اور تہمت لگانے کے بعد کہتے ہیں کہ اجی ہم تو تنقید کر رہے تھے اور ہمیں اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا سوشل اور روایتی میڈیا← مزید پڑھیے
جیسے پھتو بھائیوں کے نام پر یاروں کو روتی ہے بالکل ایسے ہی احساس کمتری کے مارے کئی لوگوں نے رونا انگریزی کا ڈالنا ہوتا ہے لیکن بہانے بہانے سے نام علاقائی زبانوں یا اردو کا لیتے ہیں۔ ایک پھتو کہتی ہے کہ اردو کا رسم الخط رومن کر دیا جائے تو شرح خواندگی سو فیصد ہو جائے گی اور ملک ترقی کرے گا۔ واہ جی واہ۔ کیا عجیب منطق ہے۔ لگتا ہے پھتو کو زبان، خواندگی اور ترقی کی ذرا بھی سمجھ نہیں۔ کوئی تو اسے سمجھائے کہ رسم الخط تبدیل کرنے سے بات نہیں بنے گی، بات تو تب بنے گی جب پھتو← مزید پڑھیے
اپنے سمیت تمام اردو بلاگران سے نہایت معذرت کے ساتھ۔ انٹرنیٹ کے بنجر کنارے ویران زمین پر ہم اردو بلاگر بستے ہیں۔ حقائق کا بھوت اردو بلاگروں کو غصے سے بولا چپ کرو۔ نہ تمہیں کوئی جانتا ہے نہ پڑھتا ہے۔ خوش فہمی کی افیون کے نشے سے باہر نکلو اور دیکھو کہ تم کتنے پانی میں ہو۔ احساس کمتری کے مارے غلام ذہنیت، شکی مزاج مگر شیر اردو بلاگرو← مزید پڑھیے
کہیں بحث ہو رہی تھی۔ ایک کے پاس دلائل ختم ہوئے تو دوسرے کو بڑے آرام سے کہہ دیا کہ اب آپ جذباتی ہو رہے ہیں۔ حد ہے یار۔ کوئی اپنی غلطی یا بہتری کا احساس کرے تو وہ جذباتی۔ دلائل ختم ہو جائیں تو دوسرا جذباتی۔ کسی پر اپنی بڑتری جتانی ہو، خود کو عقل کل بنانا ہو، کسی کا تمسخرا اڑانا ہو یا کہیں بھی فلسفی بننا ہو تو دوسرے کو کہہ دو آپ جذباتی ہو رہے ہیں← مزید پڑھیے