خواتین و حضرات! میں ہوں اس داستان کا میزبان منظرباز۔۔۔ زندگی جیتے تمام مسافروں سے التماس ہے کہ برائے مہربانی انسان سے وابستہ امیدوں اور شکوہ شکایت کا بوجھ اتار دیجئے اور سفری و سیاحتی سامان باندھ لیجئے۔ یوں قوی امید ہے کہ آپ کا سفر یادگار ہو گا۔۔۔ بہرحال ہماری اس سفری داستان میں شادیانے بجتے ہیں، چشمے گاتے ہیں، آبشاریں مٹکتی ہیں، برفیں تڑکتی ہیں اور پریاں ناچتی ہیں۔ اس کہانی میں رومانس ہے… ٹریجڈی ہے… ڈرامہ ہے۔ شاعری ہے… نثر ہے۔ نظم، غزل، مضمون اور افسانہ ہے… مکالمہ ہے۔ ساکت و متحرک کردار ہیں۔ یہ مہم جوئی ہے۔ یہ امتحان، صبر، برداشت اور حوصلے کی کہانی ہے۔ اس میں← مزید پڑھیے
پہاڑی علاقے کے خوبصورت گھر اور سرسبز کھیت ہمارے سامنے تھے۔ وہ سماہنی سیکٹر کا سرحدی علاقہ تھا اور سامنے والی وادی مقبوضہ کشمیر کی تھی۔ ناران کی سرد رات ہو، لالہ زار میں پڑتی برف ہو یا پھر دیو سائی کا بلند میدان ہو، جہاں سبزی آسانی سے نہیں گلتی، وہاں پر بھی جو بکرے کا گوشت طلب کرتے ہیں، آج انہیں ”تاتاریوں“ کو چوکی شہر پہنچ کر دال زہر مار کرنی پڑی۔ اس کے بعد ڈنہ بڑوھ میں چشمے کنارے آرام کر کے جب پہاڑ شاہ پہنچے تو وہاں نخرے کرتی صنفِ نازک← مزید پڑھیے
جہاں چشمے گنگناتے ہیں۔ جہاں چاندنی روح تک اترتی ہے۔ جہاں قدم قدم پر رب یاد آتا ہے۔ جس دیس کے سر پر پربت کا تاج ہے۔ جس دیس میں پریاں بستی ہیں۔ جو دیس دنیا میں جنت ہے۔ افسوس صد افسوس! اس دیس میں خون بہایا گیا۔ اس دیس میں صفِ ماتم بچھی ہے۔ وہ جنت خون کے آنسو رو رہی ہے۔ افسوس صد افسوس! آج پربت کا تاج شرم سے جھک گیا۔← مزید پڑھیے
سو چہروں والے قاتل پہاڑ کے دامن میں ہر سال جانے کا سوچتے، پروگرام بننا شروع ہوتا اور مکمل ہونے سے پہلے ہی کوئی دوست کہتا کہ دن بہت زیادہ لگ جائیں گے اور کاروبار متاثر ہو گا، کوئی لمبے سفر سے ڈر جاتا۔ کاروبار متاثر اور لمبا سفر تو صرف بہانا ہوتا، حقیقت تو یہ تھی کہ ہر کسی کو ”بیوی“ سے اجازت نہ ملتی۔ ہمارا کیا ہے، دوست ساتھ ہوں تو لمبے سے لمبا سفر بھی چھوٹا لگتا ہے اور موتی چور کا لڈو کھانے کا ”ارمان“ خیر سے ابھی تک پورا ہی نہیں ہوا۔ بہرحال جیسے تیسے کر کے اب کی بار سب نکل ہی پڑے← مزید پڑھیے