پہاڑوں پر شام اُتر رہی تھی مگر ہم پہاڑ چڑھ رہے تھے۔ اُس دن کی آخری چڑھائی ختم ہونے کو تھی اور میں دن بھر کی تھکاوٹ سے بے حال ہوا پڑا تھا۔ ایک جگہ سانس لینے رُکا۔ نظر اٹھائی تو سورج کی آخری کرنیں نانگاپربت کا بوسہ لے رہی تھیں۔ اس شاندار نظارے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اچانک ایک سوال کوندا کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ اتنا کشٹ کیوں کر رہا ہوں؟ آخر میں نے تصویریں بھی کیونکر بنائی؟ اگلے ہی لمحے کچھ لہریں دماغ تک پہنچیں، قدرت نے جوابات عنایت کر دیئے۔ یہیں پر سیاحت کی ترقی و ترویج اور لوگوں کی راہنمائی جیسے مضحکہ خیر نعرے ← مزید پڑھیے
جوگی و نیم جوگی اور رانجھوں کی مہربانی کہ وہ تشریف لائے اور ہم نے ٹلہ جوگیاں کی مہم سرانجام دی۔ بتاتا چلوں کہ اپنا یار چناب تو سب سے پہلے، اس کے بعد ناران کا لالہ زار، نانگاپربت کا روپل چہرہ اور خاص طور پر ٹلہ جوگیاں کا میری سیاحت میں بہت بڑا کردار ہے۔ چناب کے بعد منظربازی کا اصل جوگ مجھے یہیں سے ملا تھا۔ ٹلہ جوگیاں ہزاروں برسوں کی تاریخ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ گروگورکھ ناتھ سے لے کر باباگرونانک تک، رانجھے سے لے کر علامہ اقبال تک، احمد شاہ ابدالی کے قتل عام سے لے کر تقسیمِ ہند پر اجڑنے تک، اور خزانوں کی تلاش سے لے کر غوری میزائل کے تجربے تک، بہت سی کڑیاں اور سلسلے ٹلہ جوگیاں سے جا ملتے ہیں۔ وارث شاہ کے رانجھے نے بھی یہیں پر کان چھیدوائے اور جوگی بنا اور ہم نے بھی← مزید پڑھیے