محبت و امن کے سفیر مسجد سے نکلے تو اظہارِ یکجہتی کے لئے مندر پہنچے۔ اُدھر تم مسجد توڑو، اِدھر تم مندر توڑو۔ گویا تم دلوں کو توڑتے جاؤ، مگر ہم جوڑتے جائیں گے۔ کیونکہ ہمارا مذہب ”امن“ ہے، ہمارا پیغام محبت ہے۔ بھونگ مندر کے بعد رحیم یار خان کے پاس دریائے ہاکڑہ کے کنارے پتن منارہ گئے۔ کسی زمانے میں یہ ہندومت اور بدھ مت کا خاص مرکز ہوا کرتا تھا۔ مگر زمانہ بدلا، موسم بدلا اور دریائے ہاکڑہ خشک ہو گیا۔ لوگ بوند بوند پانی کو ترسے اور ہاکڑہ تہذیب ریت کے ٹیلوں میں کہیں کھو گئی۔ پانی نہ صرف زندگی ہے بلکہ یہ تہذیبوں کا امین بھی ہے۔ پانی کی قدر کیجیئے صاحب۔ اور پھر امان گڑھ کی ہندو برادری← مزید پڑھیے
پنجاب کا آخری ضلع رحیم یار خان اور اس کی آخری تحصیل صادق آباد اور اس میں موجود اک قصبہ بھونگ اور وہاں بنی اک مسجد۔ جہاں ہم اک روز ساڑھے بارہ بجے کے قریب پہنچ گئے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اُدھر پہنچے ہی کیوں؟ الجواب:- بھونگ کی جامع مسجد دیکھنے۔ کیونکہ یہ تعمیرات کا اک شاہکار ہے۔ جس کی تزئین و آرائش میں سونے، چاندی، ہاتھی دانت اور قیمتی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ خیر ہم مسجد کی فوٹوگرافی میں اس قدر مگن تھے کہ پتہ ہی نہ چلا اور نمازِ جمعہ کا وقت قریب آ گیا۔ نمازی تشریف لانا شروع ہو گئے اور جب میں نے مسجد کے مرکزی کمرے میں سیلفی بنائی تو نمازیوں نے← مزید پڑھیے
پاکستان کی تلاش میں نکل رہا ہوں۔ اس سفر میں لاہور، ملتان، بہاولپور، چولستان، رحیم یارخان اور سکھر کے راستے کراچی تک جانے کا ارادہ ہے۔ سفر کے دوران مختلف مقامات بھی دیکھوں گا، پھر سمندر کی بے مہار لہروں کو چھونے کے بعد اگر سب اچھا رہا تو کوئٹہ اور اس کے بعد پربت کی طرف سفر میں پشاور اور دیگر شمالی علاقہ جات۔ مزید اس سفر کے دوران انٹرنیٹی اور بلاگر دوستوں سے بھی ملاقات ہو گی۔← مزید پڑھیے