سنو تو سہی! کوہِ سوز کے دامن میں، دکھی وادی کے فریبی جنگلوں کے درمیاں، اک حقیر و لاغر ہوں میں۔ انا پرستی کے گرداب میں میری سانسیں ڈوب جاتی ہیں۔ میری روح بادِ صبا کے اک جھونکے کو ترستی ہے۔ مُردار کا گوشت نوچنے والی گِدھوں کی اولادیں، جب اونچے برجوں پر براجمان ہوتی ہیں تو ان کا نزلہ بھی مجھ پر گرتا ہے۔ یوں میری رہی سہی عزت کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔ میری خودی کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔ میری روح دھاڑیں مار کر روتی← مزید پڑھیے
سبھی نہیں مگر اکثریت مرنا بھی نہیں چاہتی اور یہ بھی سوچتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ اگر کوئی سوچتا ہے کہ اس کے مرنے کے ساتھ دنیا رک جائے گی یا دنیا کو کوئی فرق پڑے گا تو یقین کریں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ اس دنیا کو کسی کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں ہر لمحے انسان پیدا ہو رہا ہے اور مر بھی رہا ہے۔ یہ دنیا یونہی روز اول سے چل رہی ہے اور قیامت تک چلتی رہے گی۔ البتہ میرے مرنے کے بعد← مزید پڑھیے
ہم دونوں چناب کنارے ملے اور لاہور روانہ ہو گئے۔ امید تھی کہ لاہوری اردو بلاگر ہمیں راوی پل پر خوش آمدید کہیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ زندہ دلان لاہور اپنی زندگیوں میں ہی مصروف رہے۔ ہم پہلی اردو بلاگرز کانفرنس کے کام کاج کے سلسلے میں رات سات بجے کے قریب لاہور پہنچے← مزید پڑھیے
صبح کے پانچ بجے پتہ چلا کہ بڑے بڑے آگ کے گولوں کی بارش نے امریکہ میں تباہی مچا دی۔ پانی کی ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند سمندری لہر پاکستان کی طرف بڑھ رہی ہے اور جلد ہی ہم سب ختم ہو جائیں گے۔ پوری دنیا میں بس چند انسان زندہ بچیں گے۔ کیا مایا مذہب واقعی← مزید پڑھیے
وہ جو مسکراتے ہوئے لمبی کالز کرتی ہیں ان کی فون پر ہونے والی گفتگو سنیئے۔ لڑکیوں کے سی ٹی سکین کرنے والی آنکھوں میں جھانک کر دیکھئے، تو پتہ چلے گا کہ یہی کچھ تو سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا غیر سوشل رویہ نہیں بلکہ یہ عوام کا رویہ ہے۔ یہ روایتی میڈیا کا موازنہ سوشل میڈیا سے کرتے ہیں۔ روایتی میڈیا ادارہ جبکہ سوشل میڈیا تو عوام ہے۔← مزید پڑھیے