سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر کوئی اپنی بات آسانی سے کہہ سکتا ہے۔ دنیا نے اس اظہار و گفتار کی آزادی کے لئے بڑے پاپڑ بیلے ہیں۔ اب جا کر تھوڑی بہت آزادی ملی ہے۔ لیکن ہماری اکثریت یہ جانتی ہی نہیں کہ درحقیقت آزادی اظہار ہے کیا؟ یہاں تو کئی لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے، تذلیل و بدنام کرنے اور تہمت لگانے کے بعد کہتے ہیں کہ اجی ہم تو تنقید کر رہے تھے اور ہمیں اظہارِ رائے کی آزادی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارا سوشل اور روایتی میڈیا← مزید پڑھیے
اردو بلاگرز کانفرنس کے دوسرے روز کا آغاز تلاوت کلام پاک کے بعد ناہید مصطفیٰ کی بات چیت سے ہوا۔ اس کے بعد کینیڈین کیٹی مرسر نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنے خیال کا اظہار کیا۔ چائے کے وقفے میں محمد حسن معراج نے مذاق میں رضیہ پھنسی غنڈوں میں محاورہ بولا۔ جس کی بعد میں انہوں نے وضاحت کی۔ فرحت عباس شاہ نے کہا کہ میڈیا پالیسی کا پابند ہے جبکہ بلاگر آزاد ہے۔ اردو بلاگر میڈیا کا متبادل بن جائے کیونکہ پاکستان کے لئے جو اردو بلاگر کر سکتا ہے وہ کوئی دوسرا نہیں← مزید پڑھیے
وہ جو مسکراتے ہوئے لمبی کالز کرتی ہیں ان کی فون پر ہونے والی گفتگو سنیئے۔ لڑکیوں کے سی ٹی سکین کرنے والی آنکھوں میں جھانک کر دیکھئے، تو پتہ چلے گا کہ یہی کچھ تو سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا غیر سوشل رویہ نہیں بلکہ یہ عوام کا رویہ ہے۔ یہ روایتی میڈیا کا موازنہ سوشل میڈیا سے کرتے ہیں۔ روایتی میڈیا ادارہ جبکہ سوشل میڈیا تو عوام ہے۔← مزید پڑھیے
ہر اِدھر اُدھر کی بات اور ہر سنی سنائی بات کی پہلے خود تحقیق کریں پھر دوسروں کو بتائیں۔ اگر کوئی اسلامی بات یا مسئلہ ہم کسی کو بغیر حوالہ کے اسلام کا نام لے کر کہہ دیتے ہیں اور اگر وہ اسلام کے مطابق نہ ہوئی تو یوں ہم نے جھوٹ کو اسلام کی طرف منسوب کر دیا۔ تو یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے← مزید پڑھیے