دریائے چناب کے کنارے پر۔۔۔ آسمان پر چھائی کہکشاں۔۔۔ اک جلتا الاؤ۔۔۔ اک بیری کا درخت۔۔۔ اور اس کے پاس درویش کی کُٹیا۔۔۔ ”اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے… سب مایا ہے“۔۔۔ سڑک چھوڑی، بند سے اترے اور عین کنارے پر چلتے چلتے گھاس پھوس سے بنی کُٹیا کے قریب پہنچے۔ اس دشت و بیابان میں ایک طرف رات شدید تاریک، خطرناک کیڑے مکوڑوں کا گڑھ، اور دوسری طرف چناب میں طغیانی بڑھ رہی تھی۔ پانی کناروں سے باہر نکلنے ہی والا تھا۔ مگر اک دیوانے کو اپنے مطلوبہ نظارے کی تصویر درکار تھی۔ اور پھر اسی دوران کنارہ ٹوٹ کر گرا، پانی تیزی سے باہر نکلا اور مجھے← مزید پڑھیے
لمبے انتظار کے بعد ایک دن دریائے چناب پر پُل بننا شروع ہوا۔ پل کے حفاظتی بند بنا کر جب کمپنی پل بنانے کے لئے دریا میں اتری تو حکومت بدل گئی۔ درخت کاٹ کر سیمنٹ سریا اُگانے کی قائل حکومت نے آتے ہی اس منصوبے کو منسوخ کر دیا۔ پل کا جو کچھ بنا ہوا تھا وہ ویسا ہی پڑا رہا اور من موجی دریا اسے آہستہ آہستہ بہا لے گیا۔ منصوبے کی فائل سردخانے میں پڑی رہی اور پھر ایک دن ”شریفِ لاہور“ کی میز پر پہنچی۔ یوں دوسری دفعہ اپنی نوعیت کا منفرد پل خشکی پر بننا شروع ہوا۔ بند باندھ کر دریا کو بند کر دیا گیا۔ پانی وسیع رقبے پر پھیل گیا۔ گندم کی تیار فصل برباد ہو گئی۔ اب اگر ہم ڈوبے ہیں تو صنم← مزید پڑھیے
کئی دنوں بعد دھوپ نکلی۔ شاید باہر کا موسم خوبصورت تھا، مگر دل افسردہ تھا۔ کیونکہ ہماری دنیا ہی بدل چکی تھی۔ محض ایک رات میں دیہاتوں کے دیہات اجڑ گئے۔ کئی لوگ انتظامیہ کے کہنے پر گھر بار چھوڑ کر نکلے اور بہتوں کو پانی نے خود آ کر نکالا۔ اس کے باوجود بھی چند لوگ گھر چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے۔ پھر سیلاب کی ایسی رات آئی جو بہت کچھ بہا کر لے گئی۔ وہ رات امدادی کاموں میں گزری۔ لیکن اگلے دن میں اس سے مخاطب ہوا کہ لوگ تو تیرے عاشق ہیں مگر کل رات تیری بے وفائی نے← مزید پڑھیے
ہو سکتا آپ لوگوں کو میری ان باتوں پر غصہ آئے لیکن کبھی ہم نے اپنے میڈیا، انقلابیوں اور ایجادیوں پر غور کیا ہے کہ انہوں نے کیا تماشہ لگا رکھا ہے۔ ایجادی جاہل میڈیا کے بل پر عام عوام کو جاہل بنا رہے ہیں۔ اجی میں کیا ہوں، اب تو اچھے اچھوں کی واٹ لگنے والی ہے← مزید پڑھیے