خواتین کو دیکھ کر ”خواتینے“ بھی ایسے تیار ہوئے جیسے مقابلہ حسن میں جانا ہو، حالانکہ ہم پہاڑوں کو اپنا آپ دکھانے نہیں بلکہ انہیں دیکھنے جاتے ہیں۔ خیر دس خواتین، سترہ مرد اور ایک مسافرِشب، چند گدھے اور ایک منظرباز ٹریک پر نکلے۔ پہلے ایک چشمہ، پھر جنگل، پھر چراگاہ اور پھر جہازبانڈہ آ گیا۔ کیا واقعی؟ سچی؟ نہ سائیں نہ۔ ایسے نہیں۔ ناریل پھوڑا نہ چوگ بھرا۔ کوئی موم بتی جلائی نہ چادر چڑھائی۔ ایسے تو نہیں ہوتا۔ جہاز بانڈہ ہے کوئی مذاق نہیں۔ بہرحال ٹریک کی مشکلات، فطرت کا انتقام، راجہ تاج محمد کا بندوق کے زور پر خوش آمدید کہنا، رات کی فوٹوگرافی، الاؤ کے گرد خواتین و حضرات کے گانے اور پائل کی جھنکار← مزید پڑھیے
پتہ نہیں سفر خوش نصیب تھا یا پھر ہم۔ وہ کیا ہے کہ نگینے جمع ہوتے جا رہے تھے اور مجھے لگا کہ محسن اتنے لکھاریوں کو اکٹھا کر کے ایک ساتھ سمندر برد کرنا اور جان چھڑانا چاہتا ہے۔ ویسے امیرِکارواں نے لیلیٰ مجنوں سے بھی بہت زیادتی کی۔ تتربتر مسافروں کو آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بنا کر دو گاڑیوں میں سوار کر دیا۔ میری تو تصویرِکائنات ہی بے رنگ ہو گئی، مگر باقی ایسے چپ تھے جیسے سب کی ناراض ہو کر چلی گئی ہو۔ گاڑی کی وجہ سے میرے سر میں درد ہونے لگا، جبکہ بائیک پر ایسا نہیں ہوتا، البتہ تب کہیں اور درد ہوتا ہے۔ صدا آئی کہ سو جاؤ! ابھی تو بلندیوں پر ’نچ کے یار منانا‘ ہے۔ یونس ’بےبی ڈول‘ کو دیکھنے اور احسن بھائی← مزید پڑھیے
سنو…روح بنجر ہے اور پیاسا من…کبھی آؤ چناب کی صورت۔ دِیاخلیل صاحبہ کا یہ شعر مجھے بہت پسند ہے۔ یوں محبوب کو چناب کی صورت بلانے کے تو کیا ہی کہنے۔ سن لیا تم نے؟ نہیں سنا تو یہ سنو کہ لمبی چوڑی سیاحتوں، دربدر بھٹک کر، لمبی لمبی تحریروں اور ڈھیروں تصویروں سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں، اس کی ایک جھلک جب میرے سامنے پردۂ سکرین پر چل رہی تھی، تب جھیل کٹورہ کے کنارے محترم شفان حسن نے اور کمراٹ آبشار کے سامنے انم خان صاحبہ نے وہ نایاب لمحات قید کر دیئے۔ تُو اس وقت چناب کی صورت آیا اور سارے منظرنامہ پر چھایا اور دھرتی نے گایا اور عشق نے بلھے کو نچایا اور پھر← مزید پڑھیے